عامر خاکوانی
هفته 27 مئی 2023ء
اپنی زندگی میں کئی بزرگوں سے ملنے کی سعادت ملی۔ حقیقی معنوں میںکسی صاحب معرفت بزرگ کا اگر مجھ سے پوچھا جائے تو وہ قبلہ سرفراز شاہ صاحب ہیں۔ روحانی سکالر، صاحب کشف، مستجاب الدعوات اور باعمل بزرگ۔روحانیت پر آٹھ شاندار کتب کے مصنف۔ سید سرفراز شاہ صاحب سے پہلی ملاقات کوئی ستائیس برس پہلے ہوئی۔ میں ان دنوں تازہ تازہ لاہور میں وارد ہوا تھا۔لاہور کے ایک ماہانہ جریدے میں ملازمت ہوگئی ۔لاہور آنے کے بعد سب سے پہلی خواہش اشفاق احمد سے ملنے کی تھی۔ ان سے وقت لیا اور ان کے گھر جا دھمکے۔ اشفاق صاحب گفتگو کے جادوگر تھے، دستر خوان کی طرح دل بھی کشادہ تھا، نوجوانوں کو خاص کرکھل کر وقت دیتے۔ پہلی ملاقات میں ان سے پوچھا کہ کسی بابے کا پتہ بتائیں۔ وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ خود ڈھونڈو۔ ان کا خاص جملہ تھا ،جو ایسا سوال کرنے پر لازمی کہتے،’’بی اے کرنے کے لئے چودہ سال لگا دئیے ، بابا ڈھونڈنے کے لئے ایک مہینہ تو تگ ودو کرو۔ ‘‘ اتفاق سے انہی دنوں اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں محترمہ صغیرہ بانوشیریں سے ملاقات ہوئی، وہ گھریلو مشوروں پر اپنا کالم ’’مشورہ حاضر ہے‘‘ دینے آئیں۔شیریں آپا نے اپنے مرشد سید سرفراز شاہ صاحب کا ذکر کیا، ضمنی طور پر یہ بھی بتایا کہ ممتاز مفتی نے نہ صرف شاہ صاحب پر خاکہ لکھا ہے ،بلکہ اپنی کتاب الکھ نگری کو بھی ان کے نام منسوب کیا ہے۔اتفاق سے اگلے روز اشفاق احمد کے گھر جانا ہو۔ اشفاق صاحب سے میں نے سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں ڈائریکٹ سوال پوچھ لیا کہ آپ کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔
اشفاق صاحب نے اعتراف کیا کہ میری نظر میں سرفراز شاہ’’ صاحبِ روحانیت ‘‘ہیں، ان سے خود بھی استفادہ کیا ہے۔ اشفاق احمد کے سرٹیفکیٹ کے بعد کسی اور کی رائے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی جمعہ کو میں شاہ صاحب سے ملنے جا پہنچا۔ میرے ذہن میں ایک خاکہ تھا کہ روایتی پیر ومرشدوںکی طرح کا سفید جبہ نما لباس ہوگا، سر پر پگڑی ، ہاتھ میں تسبیح ، گلے میں صافہ ، سرمہ لگی سرخ آنکھیں اور گھنی ڈاڑھی مونچھ ہوگی۔ وہاں پہنچ گئے ، پہلے تو گھر کو دیکھ کر مایوسی ہوئی، عام سا گھر، دروازے کے باہر کوئی بورڈ لگا ہوا نہ ہی ہٹو بچو کی آوازیں نکالتے مریدحضرات۔چھوٹا سا گیٹ ، اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ڈرائنگ روم ، وہاں دبیز قالین بچھا ہوا، لوگ قطاریں بنا کر بیٹھے تھے، میں بھی ایک قطار میں براجمان ہوگیا۔ کمرے میں بلا کی خاموشی تھی، چند لمحوں بعد جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ سامنے دیوار کے ساتھ ایک ڈائننگ ٹیبل رکھی ہے، اس کے ایک کرسی پر کوئی ادھیڑ عمر صاحب بیٹھے ہیں۔ باری باری قطار میں سے ایک آدمی اٹھ کر ان کے ساتھ رکھی کرسی پر جا بیٹھتا ہے۔ آہستہ آواز میں وہ سوال کرتا اور وہ صاحب ایک لمحے کی خاموشی کے بعد دھیرے سے کچھ کہہ دیتے۔ حیرت سے دیکھتا رہا، ضبط نہ ہوا تو پاس بیٹھے آدمی سے سرگوشی کی، سرفرازشاہ صاحب کہاں ہیں؟ اس نے پہلے گھورا اور پھر بولا، سامنے ٹیبل پر تو بیٹھے ہیں۔
یاحیرت! یہ ہیں سرفراز شاہ صاحب۔ ذہن میں تراشا پیکردھڑام کر کے زمیں بوس ہوگیا۔ سوچا ، یہ کس طرح کے بزرگ ہیں؟ سر پر پگڑی نہ ہی پیروں والا حلیہ۔ سفید شلوار قمیص میں ملبوس، کلین شیو، نہایت سنجیدہ صورت شخص کہیں سے کوئی پیر فقیر یا درویش نہیں لگتا تھا۔ پہلا خیال یہی آیا کہ اشفاق احمد بھی بڈھے ہوگئے ، معلوم نہیں کس کے پاس بھیجنا تھا اور بھیج کدھر گیا۔ ایک بار تو سوچاکہ لمبی قطار ہے، اتنی دیر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ، واپس چلتا ہوں، جاتے وقت مزنگ چونگی سے نہاری کھا کر کوفت دور کر لوں گا۔ پھر معلوم نہیں کیوں… بیٹھا رہ گیا، شائد صحافیانہ حس براہ راست مشاہدے پر اکسا رہی تھی، چھٹی حس نے کوئی گھنٹی بجائی یا پھر کچھ اور…۔ اس دوران مشاہدہ یہ کیا کہ کسی کسی وقت وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص کے سوال کا جواب قدرے بلند آواز میں دے دیتے۔ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اس جواب میں دوسروں کے لئے بھی پیغام ہوتا۔ مثلا ایک صاحب نے معلوم نہیں کیا سوال کیا تھا، جواب میں بلند آواز سے بولے ، ’’بھائی میں کوئی پیر نہیں ہوں، مرید بناتا نہ بیعت لیتا ہوں، ہاں اپنے تجربے کی روشنی میں آپ کو ایک گر کی بات بتا سکتا ہوںکہ اللہ کے ساتھ اپنی محبت پر یقین نہیں تو بندے کے ساتھ رب تعالیٰ کی محبت اور پیار پر ہی یقین کر لیں۔ اس کی مرضی پر راضی ہوجائیں، کبھی بے سکون نہیں ہوں گے، پیروں کے پاس دعا کے لئے جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ ‘‘ یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ اچھا پیر ہے، یہ تو بندوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کے بجائے بھگانے کی تدبیر کر رہا ہے۔
ایک اور صاحب نے شائد اپنی مالی تنگی کا شکوہ کیا اور غالباً دشمنوں کے جادو تعویز کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایا ، اس پر شاہ صاحب نے قدرے تلخی سے جواب دیا تھا، ’’محترم، جب رب تعالیٰ فراوانی سے رزق دے رہا تھا، تب بھی کسی جادو کو اس کا کریڈٹ دیا ؟اب اگر قدرت نے کسی قدر تنگی کر دی تو اس کا باعث جادو او ر تعویز کو سمجھ رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر رزق بڑھ سکتا ہے نہ کوئی انسان اس رزق کو اپنے جادو سے روک سکتا ہے۔ رب ہی کبھی فراوانی دیتا تو کبھی نپا تلا رزق دے کر آزماتا ہے۔ صبر سے اس مشکل کو کاٹیں، انشا ء اللہ جلد کشادگی ہوجائے گی۔ ‘‘ گھنٹے ، ڈیڑھ بعد میری باری آئی۔ اٹھ کر ان کے پاس والی کرسی پر جا بیٹھا۔قریب سے دیکھا تو شاہ صاحب کی با رعب شخصیت کا اندازہ ہوا۔ چہرے کے نقوش میں اگرچہ نرمی تھی، مگر نادیدہ سی قوت کا احساس ہو رہا تھا، یوں لگتا جیسے کسی پاور ہائوس نے ان کے گرد ہالہ بنا رکھا ہے۔
یہ کوئی مبالغہ آمیز یا رسمی تبصرہ نہیں، بلکہ اس وقت مجھے حقیقی طور پر یہی محسوس ہوا کہ کئی ہزار وولٹ کے ٹرانسفارمر کے پاس بیٹھا ہوں، بے اختیار دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ ایک اور بات میں نے ان کے چہرے پرنوٹ کی ، وہ ان کی غیر معمولی گھنی بھنویں تھیں۔میں نے سلام کیااور عرض کیا کہ نئی ملازمت ملی ہے،اس شعبے میں ترقی کے لئے دعا فرما دیں۔وہ میری طرف دیکھے بغیر سنتے رہے، ایک لمحے کے لئے سر بائیں طرف موڑا، غور سا کیا ، پھر سامنے رکھی ٹافی اٹھاکر پکڑا دی اور کہا جائیے، اللہ بہتری فرمائے گا۔ واپس آ گیا۔ شاہ صاحب کے حلقے کا دستور تو معلوم نہیں تھا، اگلے جمعہ پھر جا پہنچا ۔ اس روز ایک خاتون کی شامت آئی ۔ وہ خاتون اپنے بیٹے کو آسٹریلیا بھجوانے کے لئے دعا کرانے آئیں۔ پہلے تو شاہ صاحب نے کہا کہ آپ اس کی ماں ہیں۔ رب تعالیٰ ماں سے زیادہ کسی اور کی دعا نہیں سنتا۔ وہ خاتون بضد رہیں کہ آپ اس کے لئے دعا کریں کہ آسٹریلیا کا ویزا لگ جائے۔ اس پر شاہ صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا، قدرے تلخی سے کہنے لگے ،’’آپ چاہتی ہیں کہ میں یہ دعا کروں کہ آپ کے انجینئر بیٹے کو ویزا مل جائے اور وہ پاکستان میں رہ کر کام کرنے کے بجائے آسٹریلیا جا کر محنت مزدوری کرے؟اپنے ملک کو چھوڑ کر اسے بلا ضرورت باہر کیوں بھجوانا چاہ رہی ہیں، زیادہ پیسوں کے لئے ؟ جس رب نے وہاں رزق دیا ہے، وہ محنت کرنے پر یہاں بھی دے گا۔ ‘‘ شاہ صاحب کا موڈ بگڑتا دیکھ کر ہمارے طوطے، چڑیا، مینا سب کچھ اڑ گئے ۔ یہی خیال آیا کہ پتلی گلی سے نکل لیا جائے۔ پھرچپکا بیٹھا رہا ۔ اپنی باری پر شاہ صاحب سے پچھلے ہفتے والا فقرہ دہراہا۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے اپنے مخصوص انداز میں غور کیا، اسے لمحاتی مراقبہ کہہ لیں۔
پھر میری طرف دیکھا اور بولے ، ’’آپ کو میرے پاس آتے کتنا عرصہ ہوگیا؟‘‘ سٹپٹا کر میں نے جواب دیا، ’’سر ، پچھلے جمعہ میں پہلی بار آیا تھا۔ ‘‘بڑی نرمی سے انہوں نے کہا، ایسی نرمی اور حلاوت ،جوا ٓج تک نہیں بھلا پایا، کہنے لگے، بیٹا، آپ کے لئے دعا کر دی کچھ عرصہ تو گزر جانے دیں، رب تعالیٰ خیر کرے گا۔ ‘‘واپس آگیا۔ دو تین ہفتے گزرے ہوں گے، یا شائد ایک مہینہ ہوا ہوگا، اچانک ہی اس جریدے میں میرے سینئر کولیگ نے کسی وجہ سے استعفا دے دیا، مجھے مینجنگ ایڈیٹر نے بلایا اور کہا کہ آپ کو کاپی انچارج بنا رہے ہیں، تنخواہ بھی فوری بڑھ رہی ہے۔پتہ چلا کہ پورے پرچے کو پلان کرنا، اس کی پروفنگ، ایڈیٹنگ ، سرخیاں نکالنا، ڈیزائننگ کرانا، یہ سب کام کرنے ہوں گے۔ اتنا اچانک ہونے پر پریشانی بھی ہوئی۔خیر رب سے دعا کی، اسی نے ہمت دی اور پھر سرخرو بھی رکھا۔ اگلے جمعہ جا کر شاہ صاحب کا شکریہ ادا کیا۔لمبی چوڑی بات سنی ہی نہیں، فرمانے لگے ،اللہ کا شکر ادا کیجئے ، جس نے آپ کو یہ عزت اور موقعہ دیا، یہ کہہ کر ہاتھ ملایا اور جانے کا اشارہ کیا۔ اس وقت تو میں چلا آیا ،لیکن یہ سوچ لیا کہ اب آئندہ زندگی میں اس بابے کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ستائیس سال گزرگئے۔ہمارا تعاقب جاری ہے۔ یہ ہمارے اس بابے کی محبت ، شفقت اور ذرہ نوازی ہے کہ اس نے میرے جیسے بدو ٹائپ لوگوں کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ سینے سے لگائے رکھا۔