رانا حسن شبیر
ستمبر 24، 2020ء
سید سرفراز شاہ سے سوال ہوا کہ زندگی میں کچھ تلخ واقعات ایسے بھی آتے ہیں جس میں انسان سوچتا ہے کہ شاید میرے ساتھ اللہ نہیں ہے، پھر کرم ہو جاتا ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے، صراط مستقیم ملنے کے بعد کون سی ایسی چیز ہے جس کو اگر تھام لیا جائے تو انسان اللہ سے دور نہیں ہوتا؟
محترم سرفراز شاہ صاحب نے بتایا کہ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بار عرض کردوں کہ ایک صاحب تھے وہ جب بھی دوستوں سے ملتے تو ہر وقت زندگی کے بارے میں شکایت کرتے، ان کے دوست بھی ان کی روز کی کہانی سے بیزار آگئے تھے، ایک دن وہ صاحب لنگڑاتے ہوئے اپنے دوستوں کی محفل میں آئے تو دوستوں نے پوچھا کہ آج کیا ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے نیا جوتاخرید اتھا، اب یہ مجھے کاٹ رہا ہے۔ دوستوں نے کہا کہ آپ نے درست سائز کا جوتا کیوں نہیں لیا؟ ان صاحب نے کہا کہ میں نے جان بوجھ کر ایک سائز چھوٹا جوتا خریدا ہے، جب میں اس کو پہنتا ہوں تو یہ مجھے تکلیف ہوتی ہے اور جب میں گھر جاکر اسے اتارتا ہوں تو مجھے بڑا آرام ملتا ہے تب میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ شکر ہے مجھے کہیں تو سکون ملا۔
میں جن بزرگ کے پاس بیٹھتا تھا، ایک مر تبہ ان کے پاس ایک صاحب آئے۔ اس نے کہا: میں مشکل میں ہوں میرے لیے دعا کریں۔ میں نے دیکھا کہ ان بزرگ کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری آئی ہے۔ میں نے ان صاحب کو اشارہ کیا کہ اس وقت نہ پوچھیں وہ صاحب شاید بہت پر یشان تھے۔ انہوں نے اپنی بات بزرگ کے سامنے دوبارہ دوہرائی تو ان کو کوئی جواب نہیں ملا ،جب تیسری بار انہوں نے کہا تو ان بزرگ نے ایک جواب دیا جو زندگی کے لیے ایک سبق ہے۔ ان بزرگ نے کہا: اچھا وقت گزارنے کے لیے تم تھے اور اب برا وقت کو ئی اور گزارے گا۔
درحقیقت ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی زندگی کے مشکل وقت سے گزر رہا ہو تا ہے اور تمام انسانوں کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے۔ جب مشکل وقت آتا ہے تو انسان اگر یہ یاد رکھے کہ میرے رب نے اس مشکل وقت سے پہلے جو اتنا عرصہ آسانیاں عطا کی تھیں تو یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے کہ زندگی میں جب مشکل وقت آتا ہے تو اس کے بعد بہت عروج آتا ہے۔
یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس مشکل وقت میں ہم بہت دعائیں کرتے ہیں تو اس وقت ایسا لگتا ہے کہ کوئی دعا اور کوئی وظیفہ کام نہیں کر رہا ہے۔ وہ دعائیں اکٹھی ہورہی ہوتی ہیں تو اس کے انعامات بھی اکٹھے ملتے ہیں۔ اسی لیے پہلے سے زیادہ عروج ملتا ہے۔
آپ ایاز کو جانتے ہوں گے جو کہ محمود کے غلام تھے اور ان کے لاڈلے بھی تھے۔ ایک دفعہ محمود نے دربار میں ایک پھل ایاز کو دیا اور دوسرا وزیر کو دیا۔ وزیر نے تھوڑا سا کھا کر یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ کڑوا ہے لیکن ایاز مزے لے کر کھاتا رہا تو محمود نے وزیر سے پوچھا کہ آپ نے یہ پھل کیوں نہیں کھایا؟ وزیر نے کہا کہ حضور یہ کڑوا ہے۔ محمود نے ایاز سے پوچھا کہ یہ پھل کڑوا ہے؟ تو اس نے کہا کہ جی حضور۔ تو محمود نے کہا کہ تم اسے کھاکیوں رہے ہو؟ ایاز نے جواب دیا کہ حضور آپ نے تمام عمر اتنی نعمتیں کھلائیں، کیا ہوا اگر آج پھل کڑوا ہوگیا تو میں انکار کیسے کروں؟
یہ رویہ اگر ہم رب تعالی کے ساتھ اختیار کرلیں تو ہم ہمیشہ سکون میں رہیں گے۔