عامر خاکوانی
جون 09، 2015ء
بیس سال قبل جب لاہور ملازمت کی غرض سے آیا اور پھر یہیں پر مقیم ہوگیا تو ملازمت کے علاوہ دو دلچسپیاں تھیں۔ پرانی
کتابوں کی دکانوں سے کتابیں ڈھونڈنا اور روحانی دنیا سے آگہی کے لئے کسی بابے کی تلاش۔ کتابوں کا چسکا بچپن ہی سے پڑ گیا تھا، جیب خرچ کم ملتا تھا، کرایے کی لائبریریوں سے لے کر پڑھتے یا پھرپرانی کتابوں کی دکانوں سے سستے داموں اچھی کتابیں خرید لیتے۔ لاہور میں یہ آسانی تھی کہ ہر اتوار کو انارکلی کے باہر پرانی کتابوں، رسالوں کا بازارلگتا، جہاں بسا اوقات بڑی شاندار کتابیں یا نایاب ادبی رسالے مل جاتے۔پرانی کتابیں بیچنے والے بڑے کائیاں لوگ ہیں۔ ذرا شک ہوجائے کہ گاہک کی کس موضوع میں دلچسپی ہے تو ان کتابوں کے دام بڑھا دیتے، اس لئے معصوم شکل بنائے ہم کئی بار غیر ضروری کتابیں بھی لے لیتے تاکہ دکاندار کو حقیقی دلچسپی کا اندازہ نہ ہوپائے۔
بابے کی تلاش کی طرف مائل ممتاز مفتی اور اشفاق احمد جیسے لوگوں نے کیا، کچھ حصہ شہاب نامہ کے آخری باب نے بھی ڈالا، جس میں قدرت اللہ شہاب مرحوم نے ایک پراسرار بزرگ نائنٹی کا ذکر کیا۔ معروف لکھاری خاتون صغیرہ بانوشیریں (مرحومہ) کا ممتاز مفتی سے خط وکتابت کے ذریعے گہرا تعلق رہا ، ان کی کتاب الکھ نگری میں صغیرہ بانو شیریں کا بھی ذکر ہے ۔ مفتی جی نے لکھاہے کہ شیریںصاحبہ ہی نے ان کا لاہور کے صاحب عرفان بزرگ سید سرفراز اے شاہ صاحب سے رابطہ کرایا تھا۔ بعد میں مفتی جب بھی لاہور آتے، شاہ صاحب سے ضرور ملتے، انہوں نے شاہ صاحب کا شاندار خاکہ بھی لکھا تھا۔شیریں آپا(مرحومہ) بڑی نیک اور ہمدرد خاتون تھیں، ان کاگھریلو مشوروں پر مبنی کالم مشورہ حاضر ہےطویل عرصے تک اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوتا رہا، دنیا سنڈے میگزین میں وہی کالم شروع کیا تو اسے بے حد پزیرائی ملی۔ روحانیت سے انہیں بہت دلچسپی تھی، باتیں بڑے مزے کی کرتی تھیں۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ مفتی جی کس بزرگ کو نائنٹی سمجھتے تھے۔ انہوں نے نام بھی بتایا، لیکن چھوڑئیے ، اخباری کالم ان باتوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ علی پور کا ایلی کہنے کو تو ناول ہے، لیکن ایک اعتبار سے وہ مفتی جی کی سوانح حیات کا پہلانصف حصہ ہے۔ اس میں انہوں نے دلی کے بزرگ حاجی صاحب کا ذکر کیا، جن کی چشتیہ آنکھ نے مفتی کو مسحور کر دیا تھا۔ مفتی جس دلکشی سے روحانیت کی طلسماتی دنیا کی منظر کشی کرتے تھے ، اسے پڑھنے کے بعد ان تحیر انگیز تجربات سے گزرنے کی خواہش بڑھ جاتی ۔
جب میری پہلی ملاقات اشفاق احمد سے ہوئی تو ان سے یہی سوال کیا کہ کسی جینوئن بابے کی طرف رہنمائی کیجئے۔اشفاق صاحب نے دامن نہ پکڑایا، کنی کترا گئے۔ ایسے سوالات پر ان کا ایک مخصوص جواب ہوتا تھا، بی اے ، ایم اے کرنے میں چودہ، سولہ سال لگا دئیے ہیں، بابا چاہتے ہو تو اس کی تلاش میں ایک مہینہ تو صرف کرو۔ ایک باران سے دریافت کیا کہ آپ خود بھی کبھی ان تجربات سے گزرے ہیں۔ اشفاق احمد صاحب نے جواب دیا ، سچ پوچھو تو جواب نفی میں ہے، مگر میرے بعض ایسے دوست جو قابل اعتماد اور سچے انسان ہیں، وہ ان تجربات سے گزرے ہیں اور اس کی روداد سناتے ہیں، مجھے ان کی بات پر اعتبار ہے ، انہیں میں جھٹلا نہیں سکتا۔
مابعدالطبیعیات دنیا کی اصحاب کشف والی سطح پر لکھنے کا سوچا تو بے اختیار میرے ذہن میںپندرہ سولہ سال پہلے اشفاق صاحب کی کہی بات گونجنے لگی۔ انہوں نے تو شائد ازراہ انکسار کہا ہوگا، ہمارے ساتھ تو واللہ وہی صورتحال ہے۔کشف اور اصحاب کشف کے بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن حاصل نہیں، البتہ خوش قسمتی سے محترم سرفراز شاہ جیسے صاحب عرفان بزرگ کی نشستوں میں شامل ہونے کی سعادت ملی، جس نے روحانیت کے بارے میں تصورات واضح کر دئیے، تصوف پر لکھی ان کی کتابوں نے بھی بہت سی گرہیں کھولیں۔بعض ناقابل یقین مشاہدات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کشف کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں، البتہ یہ روحانیت کا مقصود نہیں۔ درحقیقت یہ رب تعالیٰ کا انعام ہے،اسی کا دیا علم ہے، جس کی اپنی محدودات ہیں۔ ہر صاحب کشف بزرگ اس کا اعتراف کرتا ہے، خاص کر ٹائم فریم کا معاملہ تو خالصتاًاللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ ایسا ہوا کہ کسی صاحب روحانیت نے دعا کرتے ہوئے کشف میں کچھ دیکھااور سائل کو بتا دیا ، مگر وہ بات اپنے مخصوص وقت ہی پر پوری ہوئی۔ سچے خواب کی طرح کشف بھی رب تعالیٰ کے اذن اور اسی کے مقرر کردہ ٹائم فریم کے مطابق ہی تکمیل تک پہنچتا ہے۔
کشف بنیادی طور پر چھپی ہوئی یا پوشیدہ چیز کو کہتے ہیں۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کشف وظائف پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ بزرگ اس کے برعکس بتاتے ہیں کہ اصل نیکی ایثار وقربانی ہے، وہی منازل طے کراتی ہے۔ مرشد نئے آنے والوں کو ایک آدھ ہلکا پھلکا وظیفہ بطور وارم اپ ایکسرسائز کے عطا کرتا ہے، مگر اصل محنت وہ اس کے باطنی تزکیہ اور تربیت پر کرتا ہے۔ اس کے اندر سے بغض، کینہ، لالچ، غیبت، چغلی، نفرت، جعلی انااور خواہشات کی ہوس نکالتا ہے۔ جب دل صاف ہوجائے تو روح لطیف ہوجاتی ہے، پھر رب تعالیٰ کے انعامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ صاحب عرفان درویش کشف کو اصلاً رب تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ علم سمجھتے ہیں۔ جب علم آتا ہے تو حجابات کے پردے اٹھنے لگتے ہیں، تب کشف وکرامات بھی سرزد ہوجاتی ہیں۔ اصل بات مگر یہ ہے کہ روحانی بزرگ سالک، مرید یا شاگرد کوکشف کی سحرانگیز دنیا سے گزر جانے اور اسے کوئی اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک شریعت پر سیرت محمدی ﷺ کے مطابق عمل کرنا ہی اصل کام اور رب تعالیٰ کو خوش کرنا منتہائے مقصود ہے۔ویسے فقیر لوگ جنہیں کشف کی دولت حاصل ہوئی، وہ اسے خلق خد ا کی اصلاح اور ان کی ٹوٹتی امیدوں کو دوبارہ استوار کرنے کے لئے ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ کوئی درویش اسے مالی مفاد کے لئے استعمال نہیں کرتا، کر بھی نہیں سکتا۔ یہ انعام سلب کر لیا جاتا ہے۔عملیات کرنے والے عامل حضرات اور اپنی قوت وجدان کو بروئے کار لا کر دکان سجانے والوں اور اللہ کے نیک بندوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ درویش فی سبیل اللہ لوگوں کی خدمت کرے گا، اپنے اوصاف پر عجز وانکسار کا پردہ ڈالے گا۔ اس راستے پر دعوے نہیں ہوتے۔ دعویٰ وہی کرتا ہے ،جس کے پاس حقیقی جوہر موجود نہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ درویش پریشاں حال لوگوں کی مدد کرتے ، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، مگر اپنے گرد مجمع لگانے کے بجائے آنے والے کا رب تعالیٰ سے رشتہ جوڑتے ہیں۔ اسے یہ سکھاتے ہیں کہ صرف اور صرف رب تعالیٰ ہی پر یقین رکھو اور اس کی مرضی پر رضامند ہوجائو کہ یہی سیرت مبارکہ سے اخذ کردہ سبق ہے۔ تصوف کے اسباق درحقیقت تزکیہ نفس کا ایک طریقہ ہی ہیں۔صاحب کشف بننے یا روحانی طاقت حاصل کرنے کے خواہش مندوں کیلئے اس راستے پر کچھ نہیں رکھا۔ جس نے یہ غلطی کی، اس کے ہاتھ خاک کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔