شاہ صاحب کی خدمت میں

عبد القادر حسن

جمعرات 20 فروری 2014

کئی برس ہو گئے ہیں کہ محترم قبلہ سید سرفراز شاہ سے میری نیاز مندی میری زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے لیکن کافی عرصہ سے کچھ ان کی ملک کے اندر اور ملک سے باہر کی مصروفیات اور کچھ میری نقل و حرکت میں رکاوٹیں ملاقات کی راہ میں رکاوٹ بنی رہیں حالانکہ میری شاہ صاحب سے ملاقات میں نے نہیں کی تھی بلکہ یہ کرائی گئی تھی اور کس ہستی کے اشارے پر ہوئی، میں اس بارے میں کچھ عرض کرنے کی مجال نہیں رکھتا کسی ایسے ہی موقع پر بے بدل شاعر خورشید رضوی نے کہا تھا کہ ع نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے۔ میری قسمت بہر حال جاگ اٹھی اور شاہ صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ملک کے جو پریشان کن حالات ہیں میں ان کے بارے میں کچھ رہنمائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ طالبان کا جو واقعہ آج سامنے آیا ہے شاہ صاحب نے کوئی پانچ برس پہلے ہی مجھے بتا دیا تھا۔ اس سے قبل ذاتی طور پر میرے بارے میں جو انھوں نے کہا تھا وہ بہر حال حرف بحرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ میں شاہ صاحب کے کشف کا گویا عینی اور ذاتی گواہ ہوں آج اگر میں حالات کی متوقع کروٹوں کا پتہ لگانے کے لیے ان کا منتظر تھا تو یہ غلط نہیں تھا۔

شاہ صاحب کے مطابق بھارت کے خلاف ہماری ایک تباہ کن جنگ ہو گی اور یہ پانی کے مسئلے پر ہوگی کیونکہ ہمارے لیے دریاؤں کی ویرانی برداشت سے باہر ہے۔ اس کے لیے جنگ جیسی تباہی بھی کم ہے چنانچہ ہم پانی واپس حاصل کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ جنگ کرنے پر مجبور ہوں گے اور شاہ صاحب کے بقول اس جنگ میں فتح ہماری ہو گی۔ کئی شہر تباہ ہوں گے مگر جنگ کا نتیجہ ہمارے حق میں نکلے گا۔ شاہ صاحب نے از خود ہی بتایا کہ میاں نواز شریف کی حکومت کے دوران جنگ نہیں ہو گی۔ یہ جواب میرے اس سوال کے جواب میں تھا کہ پھر یہ جنگ کب ہو گی۔ میرے اس سوال میں کسی کے اقتداروغیرہ کا ذکر نہیں تھا میاں صاحب کے اقتدار کے بارے میں انھوں نے یہ خود ہی کہا۔ شاہ صاحب نے ایک بات یہ کہی کہ تباہ کن جنگ کے باوجود پاکستان باقی رہے گا البتہ پاکستانیوں پر جنگ کی جو ضرب شدید لگے گی وہ انھیں بدل دے گی وہ ایک نئی قوم بن کر نمودار ہوں گے اور ان کا پاکستان حیرت انگیز ہوگا۔ ملک پر جتنی قیامتیں بھی ٹوٹیں گی وہ اپنی جگہ لیکن پاکستان کی بقا کو خطرہ نہیں ہے۔ یہ ملک باقی رہے گا۔ اپنی حدود کے ساتھ۔

باتیں تو اور بھی ہیں مگر آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ شاہ صاحب کے بارے میں میرے ذاتی تجربے ایسے ہیں کہ میں ان پر اعتماد کرتا ہوں اور میرے لیے ان کا کشف ایک حقیقت ہے اور ان کا کشف جن حقائق کی نشاندہی کرتا ہے میرے لیے وہ مستند ہیں۔ میں لاہور جیسے اجنبی شہر میں جن اسباب اور سہاروں کی وجہ سے مقیم ہوں ان میں ایک شاہ صاحب کی ذات گرامی بھی ہے جو میری اس وقت رہنمائی کرتی ہے جب میری سوچ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا تو میں شاہ صاحب سے رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ مجھے یہ رہنمائی حاصل ہے۔ نہ نذر نہ نیاز بس اظہار عقیدت جس میں تصنع کی گنجائش نہیں کہ شاہ صاحب پکڑ سکتے ہیں۔ شاہ صاحب روایتی پیر نہیں اور ان کے رزق کے ذریعے بہر حال ان کے عقیدت مند نہیں ہیں اس کے لیے وہ اپنی صنعتی مہارت اور دوسری صلاحیتیں رکھتے ہیں اور رازق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ انسان کا کام محنت مشقت ہے اس کا اجر وہ دیتا ہے اور بعض اوقات وہ وہاں سے دیتا ہے جہاں سے اس کے بندے کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور کبھی اتنا دیتا ہے کہ بے حد و حساب ہوتا ہے۔ یہ سب اس کے اپنے فرمان ہیں اور ان پر یقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

قبلہ شاہ صاحب روح کے معالج تو ہیں ہی وہ انسانی بدن کے بھی معالج ہیں اور کسی کے بارے میں دوران کشف اگر چاہیں تو اس کے کسی مرض کا علاج بھی دریافت کر لیتے ہیں مجھ سے انھوں نے کہا کہ میں تمہیں ایک دوائی بجھواؤں گا صبح ایک چمچ لے لینا۔ تمہارا جسم چاق و چوبند ہو جائے گا اور موٹاپا بھی کم ہو جائے گا تو اس طرح شاہ صاحب میرے روحانی اور جسمانی دونوں طرح کے معالج ہیں لیکن ان کی ذات گرامی سے مجھے جو سکون ملتا ہے دراصل یہی میرے تمام عوارض کا علاج ہے یوں میرا مفتا لگا ہوا ہے۔ درود و وظائف کی جو پابندی شاہ صاحب کرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ ہم لوگ تو اس جاری چشمے سے سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے یہ چشمہ جہاں سے عطا ہوا تھا میں نے جیسا کہ عرض کیا ہے اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ یہ سب میری کسی خوبی کا اجر ہے یا بس یک طرفہ نعمت ہے اوراس کا سب سے بڑا ذریعہ قبلہ شاہ صاحب ہیں اور میں ان کی توجہ کا محتاج ہوں۔ شاہ صاحب کے ذکر میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن یہ زندہ سلامت ہمارے درمیان موجود ہیں ہم انھیں ان کی ذات گرامی میں پڑھ سکتے ہیں۔

پچھلے آرٹیکل

Scroll to Top