عبد القادر حسن
بدھ 3 ستمبر 2014
ابہام اور الجھنیں اس قدر بڑھ گئی ہیں بلکہ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں کہ دماغ کے نہ جانے کتنے حصے کام کر رہے ہیں اور کتنے ہیں جو ماؤف ہو چکے ہیں یہی حال قلب کا ہے اس کی پریشانیاں اور اضطرابِ مسلسل سے نہیں معلوم اس کی کتنی نالیاں کام کر رہی ہیں اور کتنی بند ہو چکی ہیں یا ہونے والی ہیں ان حالات اور اس کیفیت میں کوئی کیا لکھ سکتا ہے لیکن میری خوش قسمتی کہ ایسے حالات جن سے گھبرا کر کچھ لوگ شہروں اور آبادیوں سے باہر نکل جاتے تھے اور بیابانوں اور جنگلوں میں بسیرا کر لیتے تھے وہ صوفی کہلاتے تھے اور جب عام لوگوں کی ان تک رسائی ہوتی تھی تو وہ ان کے قدموں میں جھک کر ان کا خیر مقدم کرتے تھے۔
ان صوفی لوگوں کو قدرت اظہار کی خصوصی صلاحیت عطا کرتی تھی شاید اس لیے کہ وہ اپنی قلبی کیفیات کو آگے بیان کر سکیں اور خلق خدا کو ان سے مستفید کریں ان میں سے اکثر شاعر بھی تھے اور نظم و نثر میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ ایسے صوفیاء کی فہرست بہت ہی طویل ہے۔ ہمارے ہاں لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ مدفون ہیں اور ان کا فیض بھی جاری ہے لیکن ان کا ایک دیوان بھی تھا جو کسی نے چرا لیا اور حضرت داتا عمر بھر اس کا افسوس کرتے رہے یعنی ہمارے صوفی بھی اگر کشف المحجوب جیسی تصوف کی کتاب کا تحفہ دے گئے جس پر دنیا متفق ہے کہ یہ تصوف کی سب سے بڑی کتاب ہے تو ان کے پاس ہمارے لیے شاعری کا تحفہ بھی تھا جو ہماری قسمت میں نہ تھا۔
صوفیائے کرام کی تصانیف کا ذکر ایک صوفی کی تازہ تصنیف سے ہو رہا ہے جو میرے سامنے ہے ہم ایک ایسے دور کے خوش قسمت انسان ہیں جو اپنے زمانے کے صوفیاء سے محروم نہیں ہے۔ میرے سامنے حضرت سرفراز اے شاہ صاحب کی تازہ تصنیف ’لوح فقیر‘ جگمگا رہی ہے جو کوئی ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں شاہ صاحب قبلہ نے اپنی خاص مجلسوں میں حاضرین کے سوالات کے جواب دیے ہیں۔ یہ سوال و جواب اس کتاب میں جمع ہیں اس سلسلے کی یہ چوتھی کتاب ہے جو کہے فقیر‘ فقیر رنگ اور فقیر نگری کے بعد ہمیں نصیب ہوئی ہے۔
یہ چونکہ کسی موضوع پر کوئی مسلسل کتاب نہیں ہے اس لیے یوں زیادہ مفید ہے کہ اس میں ذہنوں میں پیدا ہونے والے متنوع سوالات کے جواب ہیں اور ذہن بھی آج کے دور کے اور ان کے جواب مرحمت کرنے والے بھی آج کے دور کے۔ یوں یہ تصوف کی ایک تازہ ترین کتاب ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔
کتاب کا نام ہے ’لوح فقیر‘ جس کے نیچے درج ہے ’’دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی روحانی گفتگو‘‘ یہ ’’کہے فقیر‘‘ کے سلسلے کی ایک کتاب ہے جیسا کہ عرض کیا ہے یہ گفتگو شاہ صاحب کی مجلسوں پر مشتمل ہے اور شکر ہے کہ وہ ان مجلسوں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں انھیں اتنا وقت اور صحت ملتی رہے کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ قبلہ شاہ صاحب کے کشف کا ذکر میں کرتا رہتا ہوں اور ان سے ڈرتا بھی رہتا ہوں کہ اپنی غیر حاضری کا کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا۔
ایک دفعہ میں نے انھیں گھر پر دعوت دی اور اس گھر کا قدرے پر پیچ راستہ بتانے کی کوشش کی تو ان کے کسی ساتھی یا بیگم صاحبہ محترمہ نے مجھ سے کہا کہ پہنچ جائیں گے اور ان کا کشف انھیں راستہ دکھاتا رہا اور وہ وقت مقررہ پر تشریف لے آئے۔ ان کے کشف کا میرے ساتھ ہونے والا واقعہ میں بتاتا رہتا ہوں اور اس کے بعد مزید کچھ گنجائش باقی نہیں رہتی لیکن نئے پڑھنے والوں کے لیے اس کو مختصراً بیان کرتا ہوں۔
شاہ صاحب نے مجھے میرے ایک کمیونسٹ دوست صحافی اور ادیب احمد بشیر کے ذریعہ ملاقات کا پیغام بھیجا میں نے احمد بشیر سے کہا کہ تمہارا ان لوگوں سے کیا تعلق لیکن اس نے کہا کہ چلو۔ تاخیر ہو گئی تو وہ دوبارہ آیا اور کہا کہ تمہیں کہا جو ہے کہ شاہ صاحب سے ملو چنانچہ میں ان کے ہمراہ حاضر ہوا۔ قبلہ شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ نے گزشتہ عمرے کے دوران جب حضور پاک ﷺ کے دربار پر حاضری دی تو اس وقت یہ دعا مانگی یا فریاد کی۔ پھر انھوں نے یہ دعا مجھے بتا دی اور فرمایا کہ یہ منظور کی گئی ہے۔ میں زندگی میں پہلی بار ہکا بکا رہ گیا۔
اس مقام پر دعا خاموشی میں کی جاتی ہے بے پایاں ادب کے ساتھ پھر اس وقت جو لوگ آس پاس موجود ہوتے ہیں وہ سب اپنے اپنے مطلب کی دعا کر رہے ہوتے ہیں کسی کی سن نہیں ہوتے۔ یہ امکان نہ تھا کہ شاہ صاحب کو کسی نے بتایا ہو کہ میں نے کیا دعا مانگی تھی۔ شاہ صاحب نے مجھے میری دعا بھی بتا دی اور اس کی قبولیت کا مژدہ بھی جو میری زندگی کا سب سے بڑا مژدہ ہے اور جس نے میری زندگی ہی بدل دی ہے۔ میں ایک بالکل مختلف شخص ہوں جو خود کو بھی نہیں پہچانتا۔ تو یہ ہیں حضرت سید سرفراز اے شاہ۔
جب کوئی ذاتی یا قومی الجھن ہوتی ہے تو شاہ صاحب سے پوچھ لیتے ہیں۔ ان میں سیاسی اور غیر سیاسی سبھی ہوتی ہیں ان کے جواب ضروری نہیں کہ ہمیں پسند ہوں لیکن ان کو سچ سمجھ کر پلے سے باندھ لیتے ہیں۔ ان مجلسوں میں آپ بھی جو سوال چاہیں پوچھ لیں لیکن کتابوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سوالات ذاتی نہیں نظریاتی ہوتے ہیں یا مسائل تصوف کے بارے میں۔ ہر کتاب کے ساتھ ایک DVD بھی ہے جسے آپ سن سکتے ہیں۔ لوح فقیر کی قیمت 899 روپے ہے اور جہانگیر بکس نے چھاپی ہے یہ کتاب اور اس سلسلے کی دوسری کتابیں بھی کسی اچھے بک ڈپو سے مل سکتی ہیں۔
قارئین کی خدمت میں عرض ہے اور یہ شاہ صاحب کی اجازت سے نہیں میں خود اپنی طرف سے عرض پرداز ہوں کہ شاہ صاحب کی صحت کے لیے دعا کی جائے۔ شاہ 1944 میں جالندھر کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کاروباری اداروں کی مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اپنی پروفیشنل زندگی کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوتے ہیں اور مولانا روم کے بقول سینے میں جو کچھ محفوظ ہے اس کو خدمت خلق کے لیے سینے سے باہر لے آؤ۔ شاہ صاحب ایک معروف صنعتی و تجارتی گروپ سے وابستہ ہیں اور روایتی پیر فقیر نہیں ہیں اور مہمانوں کی خدمت میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ میرے تو وہ خصوصی مہربان ہیں اور یہ مہربانی ان کی خصوصی شفقت کی وجہ سے ہے۔