ڈاکٹر طاہر صدیقی
اکتوبر24، 2013
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اکثر و بیشتر علمائے کرام ، دانشوروں اور صوفیاء کی محافل کا انعقاد ہوتا رہتا ہے تاکہ نوجوان نسل کی کردار سازی ہو سکے۔ گزشتہ برس ایک محفل معروف دانشور، صوفی، فقیر اور صاحب کشف جناب سید سرفراز اے شاہ صاحب کے ساتھ سجانے کا موقع ملا۔ اُن سے میری بالمشافہ پہلی ملاقات اور پہلی محفل تھی۔ پروگرام کے میزبان اور نقیب محفل کی ذمہ داری راقم کے حصے میں آئی۔ قبلہ شاہ صاحب لاہور سے تشریف لائے۔ یونیورسٹی کے طلباءو طالبات، اساتذہ اور شہر سے شاہ صاحب کے چاہنے والے نیو سینیٹ ہال میں جمع تھے۔
یونیورسٹی کے احباب نے شاہ صاحب کو خوش آمدید کہا۔ آپ پینٹ شرٹ میں ملبوس، کلین شیو، پُروقار چہرہ اور سوچ و فکر کی غماز آنکھیں چشمے کے پیچھے سے ہر چہرے پر ذرا دیر کو پڑتیں اور پھر جھک جاتیں کہ مخاطب میں اس سے زیادہ کی تاب نہیں تھی۔ محفل میں ہر سطح کے لوگ موجود تھے، لیکن ایک عجیب پُر انوار سی خامشی، ایک پُر وقار سا طلسم مجھ سمیت سب پر طاری تھا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کن الفاظ سے آغازِ محفل کروں۔ اس کیفیت سے مَیں پہلی بار دو چار ہوا تھا، حالانکہ سٹیج سیکرٹری شپ میرے لئے نیا تجربہ نہیں تھا۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مرتبہ تو اس دشت کی سیاحی کی تھی۔ مَیں نے اپنے ابتدائی جُملوں میں اعتراف بھی کیا کہ مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ مجھ پر کیا طلسم ہوشُربا طاری ہے کہ الفاظ ہیں کہ بن نہیں پا رہے، لہجہ ہے کہ وقت میں ڈوب گیا ہے۔ زبان ہے کہ جذبات کا ساتھ نہیں نبھا پا رہی۔ واللہ یہ کیا کیف ہے، یہ کیا سرور ہے، یہ کیا ناگفتہ بہ اضطراب ہے اور یہ کیا روحانی طمانیت ہے:
جیسے اب ہے میری حالت کبھی ایسے تو نہ تھی
شاہ صاحب سامعین سے مخاطب ہوئے، نہ آواز گرجدار، نہ الفاظ بھاری بھر کم، بس سلاست تھی، روانی تھی۔ دل اور زبان یکسوئی کے مظہر تھے، بات ہو رہی تھی کہ فقیری میں اپنی مَیں کو کُچلنا پڑتا ہے۔ لوگوں کی جُوتیاں سیدھی کرنا پڑتی ہیں۔ مہمانوں کے جھوٹے برتن خود دھونا پڑتے ہیں۔ خواہشات کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ ہر کسی کو اپنے سے اعلیٰ اور ہر کسی کی خدمت کو اپنا شعار بنانا پڑتا ہے، تب فقیری کا مرتبہ ملتا ہے۔ آپ فرما رہے تھے….فقیر مانگنے والا نہیں ہوتا۔ فقیر مانگتا نہیں عطا کرتا ہے۔ فقیر عاجزی کا پیکر اور انکساری کا مرقع ہوتا ہے۔ وہ سراسر تسلیم و رضا ہوتا ہے، وہ تو پیکرِ صدق و صفا ہوتا ہے۔ وہ نفرت سے نابلد اور محبت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ وہ راضی بہ رضا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ خوش قسمت ہوتا ہے کہ وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے۔ غرض شاہ صاحب کے اندر کے جذبات اُمڈ رہے تھے۔ لفظ لفظ جذب ہو رہا تھا۔ نہ مائیک کو ضرر پہنچا، نہ ڈائس ٹوٹا، نہ شعلہ بیانی ہوئی، نہ مسجع ومقفیٰ ادب سے ماحول کو گرمایا گیا اور نہ منظوم برجستگی سے واہ، واہ اور عش عش کی صدائیں بلند ہوئیں، مگر جو ہوا اُس کو الفاظ کے احاطے میں لانا دشوار ہے۔
ہر آنکھ نم ہوئی، ہر دل گداز ہوا، ہر دامن لبریز ہوا، ہر جھولی بامراد ہوئی، ہر ذہن رومانیت سے معمور ہوا، ہر تشنہ لب سیراب ہوا، ہر متلاشی فیض یاب ٹھہرا۔ بس وہ ایک شخص کتنے دلوں کو پون گھنٹے میں مسخر کر گیا۔ سوال جواب شروع ہوئے تو منظر بدل گیا۔ یہ کشف کا سلسلہ چل نکلا۔ تمہارا بیٹا یوں کہتا ہے، وہی جو لمبے بالوں والا ہے۔ تمہاری بیماری ٹھیک ہو جائے گی۔ فلاں چیز سے پرہیز کر لو، تم یہ دعا مانگا کرو، اللہ مشکل آسان کر دے گا۔ کسی نے کہا کہ آپ کی دعا سے راہِ راست پر آگیا ہوں۔ بس پھر کون تھا جس کو کوئی مسئلہ اور مشکل نہیں تھی۔ لوگ تو جیسے کب کے کسی مسیحا کے منتظر تھے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں جو کچھ لمحوں کے لئے آئے تھے، اپنی ساری مصروفیات بھول گئے، کچھ ایسا تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود جا نہیں پا رہے تھے۔ بڑی مشکل سے شاہ صاحب کو اُن کے چاہنے والوں کی گرفت سے نکالا:
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
تری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
اس محفل کی تاثیر مجھے ایک روز چند احباب کی معیت میں سرفراز شاہ صاحب کے درِ دولت پر حاضری کے لئے کشاں کشاں لاہور لے گئی۔ شام کا وقت، سلیقے سے سجا سادہ سا ڈرائنگ روم، سفید شلوار قمیض میں ملبوس شاہ صاحب ایک کرسی پر براجمان، جنرل (ر) ذوالفقار علی خاں (ریٹائرڈ چیئرمین واپڈا)، ہائی کورٹ کے ایک جج (نام یاد نہیں) نوائے وقت میں کالم نگار ڈاکٹر اے آر خالد اور چند دیگر احباب، ہم چار آدمیوں کو بھی شریکِ محفل ہونے کی سعادت حاصل ہوگئی۔ مَیں نے شریعت، طریقت، معرفت میں فرق جاننے کے لئے سوال داغ دیا۔ لہجے میں وہی معصومیت، الفاظ میں سلاست اور سادگی۔ مَیں نے اور دیگر آنے والوں نے بہت کچھ پوچھا، چائے کی چسکیاں، شاہ صاحب کی باتیں اور ہماری بے باکیاں، بلکہ گستاخیاں، محرمانِ راز ہمیں ٹک ٹک دیکھے جا رہے تھے کہ یہ کون راز درونِ میخانہ سے ناواقف، ایک دم بولے جا رہے ہیں۔ شاہ صاحب کے سیکرٹری صابر ملک نے فون پر ہمیں ہدایت کی تھی کہ 15، 20 منٹ سے زیادہ نہ بیٹھنا، مگر ہم کہ ناواقف آدابِ فقیری تھے۔ پون گھنٹے تک شاہ صاحب کی سمع خراشی کرتے رہے اور وہ کمال شفقت سے زیر لب مسکراتے ہوئے ہمارے بے ترتیب سوالوں اور جملوں کو برداشت کرتے رہے۔ اجازت لینے کا وقت آیا تو مجھے احساس ہوا کہ تم جو اب تک بولتے رہے ہو، تمہیں باقی لوگوں کی خامشی سے بھی سمجھ نہیں آئی کہ فقیر کی محفل میں زیادہ بولنا بھی گستاخی اور بے ادبی کی علامت ہوتی ہے۔
یوں ہم اجازت لے کر عازم فیصل آباد ہوئے، کچھ مہینے اور گزر گئے تو ایک اتوار مَیں اور عزیز اویس212 جہاں زیب بلاک علامہ اقبال ٹاو¿ن لاہور پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ شاہ صاحب کا سابقہ گھر ہے اور اب یہاں ہر اتوار کو صبح لیکچر ہوتا ہے اور بعد دوپہر شاہ صاحب انفرادی ملاقاتیں کرتے ہیں، جس کے لئے ٹوکن لینا پڑتا ہے۔ ہم لوگ تقریباً 12 بجے دوپہر پہنچے تو صابر ملک اور ٹیپو سلطان نے اتنا پُرجوش استقبال کیا کہ کچھ دیر کو اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھنے لگے۔ اتنی محبت دی ان احباب نے کہ اپنے سارے پروگرام ملتوی کئے اور ہمیں گاڑی میں کھانا کھلانے لے گئے۔ محبت اور خلوص بھری باتیں اور پُر تکلف کھانا۔ ہمیں تو ان دوستوں نے گرویدہ کر لیا۔ قبلہ شاہ صاحب کے مرشد جناب یعقوب علی شاہ صاحب اور شاہ صاحب کی والدہ محترمہ کی قبروں کی زیارت کی اور فاتحہ خوانی کا شرف حاصل کیا۔ اس دوران شاہ صاحب واپس انفرادی ملاقاتوں کے لئے تشریف لے آئے۔ دو منٹ حاضری کا وقت ملا۔ شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ بیٹی کی صحت کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی، آپ نے کمال شفقت سے بیٹی کے لئے دوائی عطا کی اور مجھے ایک ٹافی دی اور بڑی محبت سے میری پذیرائی کی۔
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
محترم شاہ صاحب کی گفتگو پر مبنی دو کتابیں ”کہے فقیر“ اور ”فقیر رنگ“ زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں زندگی بدل کتابیں ہیں۔ زبان کی سلاست اور چاشنی قاری کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ دل سے نکلی ہوئی یہ گفتگو دل کو رومانیت سے لبریز کر دیتی ہے۔ دعا ہے، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔