حقوق العباد کی ادائی، قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے

رؤف ظفر

سنڈے میگزین | 16 اکتوبر ، 2022

لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف صوفی اسکالر،سرفراز اے شاہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، بالخصوص روحانیت، صوفی ازم سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے تو یہ صاحبِ عرفان بزرگ اُستاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نےدرس و تدریس، اسلامی و روحانی تعلیمات کے ذریعے اَن گنت افراد کی رہنمائی کی ہے۔1944ء میں جالندھر میں پیدا ہونے والے سرفراز اے شاہ بچپن ہی میںروحانیت کی دنیا کے صحرا نور دبن گئے تھےاوریہ سفر درس و تدریس ، دعائیہ اجتماعات، ٹی وی ٹاک شوز، انٹرویوز ، محافل کی صورت آج بھی جاری و ساری ہے۔ 

انہوں نے کارڈیف یونی وَرسٹی ، انگلینڈ سے مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اس وقت پاکستان کے ایک معروف صنعتی و تجارتی گروپ سے وابستہ ہیں، 65 سے زائد ممالک کا دَورہ کر چُکے ہیں ۔نیز، روحانیت کے مختلف موضوعات، لیکچرز ،سوال و جواب پر مشتمل ان کی 10 سے زائد کتب بھی شایع ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں شاہ صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کا موقع ملا، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: انسان کے دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد کیا ہے، اگر صرف عبادت مقصد ہے، تو اس کے لیے فرشتے اور چرند پرند کافی نہیں تھے؟

ج: عبادت کا لفظ ’’عبد‘‘ سےنکلا ہے، جس کا مطلب ’’بندگی‘‘ ہے۔ جب ہم ربّ تعالیٰ اور حضور پاکؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، تو ہماری ساری زندگی بشمول سونا بھی عبادت بن جاتی ہے۔ جب کچھ نہیں تھا، تو ربّ تعالیٰ اور اس کے فرشتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ایک ایسی تخلیق کرے ،جو اس کی ذاتِ ربّانی کی مظہر ہو۔ تب ہی اللہ نے انسان میں اپنی تمام الہیات (Virtues) کا ہلکا سا عکس رکھ دیا اور یہی وجہ ہے کہ انسان رحم کرنے والا، دوسروں کے کام آنے والا، معاف کرنے والا ہے، تو جلالی اور سزا دینے والا بھی۔ 

ربّ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیجا۔ پیغمبروں کے صحائف اور آسمانی کتابیں انسان کی رہنما یا REMINDERS کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چرند پرند ’’عبادت‘‘ تو کرتے ہیں، لیکن صاحبِ اختیار و عقل و ارادہ نہیں اور نہ ہی صحیح، غلط میں امتیاز کرسکتے ہیں، جب کہ انسان اس کے برعکس سیدھی یا غلط راہ پر چلنے کا اہل ہے۔ جب انسان اپنے اس اختیار کو استعمال کرکے، اچھے اور بُرے کی تمیز کرکے رب تعالیٰ کے احکامات، صراطِ مستقیم اور سنّتِ نبویؐ پر عمل کرتا ہے، تو دنیا بلکہ آخرت میں بھی انعام کا حق دار ٹھہرتا ہے اوربس یہی بندگی اور عبادت ہے۔

س: دنیا فی الوقت دو مختلف تصوّرات کا محورنظر آتی ہے، ایک طرف تو مادّہ پرستی عروج پر ہے، تو دوسری جانب روحانیت کے پھیلائو سے بھی انکار ممکن نہیں، خصوصاً ذہنی دباؤ کے شکار افراد روحانیت میں سکون تلاش کرتے ہیں، تو کیا واقعی اس میں سکون موجود ہے؟

ج: روحانیت کوئی آج کی پیداوار نہیں کہ یہ حضرتِ انسان کی قدیم ترین رفیق ہے۔ آج اس کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ پریشانیاں، مسائل، مشکلات، تناؤ، ڈیپریشن بہت بڑھ گیا ہے، تو انسان حقیقی خوشی اور سکون کی تلاش میں یہ دَر کھٹکھٹا رہےہیں۔یورپ اور امریکا میں تو روحانیت،سکون کے متلاشی افراد کی ایک بڑی تعداد ہندو یوگیوں، عاملوں، سادھوئوں اور ملنگوں کے پیچھے نیم پاگل ہو رہی ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں نے روحانیت کو ایک معمّا اور چیستان بنا دیا ہے۔ 

میرے نزدیک روحانیت اُس معیار تک پہنچنے کا نام ہے، جو ربّ تعالیٰ نے ایک اچھے انسان کے لیے مقرّر کیا ہے۔ بعض ماہرین روحانیت کا سلسلہ مائنڈ سائنسز (Mind Sciences) ،ارتکازِ توجّہ، ٹیلی پیتھی اوراس قسم کے دیگر مافوق الفطرت مظاہر سے جوڑتے ہیں، جب کہ میرے خیال میں روحانیت ان تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک ایسا ذریعہ ہے، جس میں آپ ربّ کو عبادت، نیکی اور مثبت سوچ کے ذریعے پکارتے ہیں۔

س: کہاجاتا ہے’’روحانیت، روح کی غذا ہے‘‘ آپ کا کیا خیال ہے؟

ج: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،اسی کا تعلق انسانی روح سے بھی ہے، جس طرح ہمارے جسم کی غذا،مادّی غذا ہے، اس طرح روحانیت کی غذا اخلاقی اقدار ہیں۔ اور یہ بات تو طے ہے کہ اسلام سے زیادہ اخلاقی اقدار دنیا کے اور کسی مذہب نے متعارف نہیں کروائیں۔روحانیت کا ایک نمایاں پہلو دینوی ہے، جس میں انسان عبادت و ریاضت کے وسیلے سے بہت آگے چلا جاتاہے۔اُس کی ذہنی صلاحیتیں بہت بڑھتی نکھر جاتی ہیں۔

اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان ربّ تعالیٰ کی اطاعت،بندگی کی انتہا کردیتا ہے، تو اسے مافوق الفطرت قوّتیں عطاکردی جاتی ہیں۔ روحانیت کی طاقت کو ہم حضرت عُمرؓ سے منسوب ایک واقعے سے سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت عُمر ؓنے مسجدِ نبویؐ کے منبر پر کھڑے ہو کر سیکڑوں میل دُور موجود کمانڈر کو جنگی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی ہدایت کی اور اُس کمانڈر نے وہ ہدایات وصول بھی کرلیں۔ ایسا ہی کوئی واقعہ مغرب میں پیش آتا، تو اسے ٹیلی پیتھی کا نام دے دیا جاتا، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے حضرت عُمرؓ کو سیکڑوں میل دُور جنگی صورتِ حال کا علم تو نہیں ہو سکتا تھا، تو وہ کیسے ہوا، یعنی یہ ٹیلی پیتھی نہیں ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے……(عکّاسی: عرفان نجمی)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے……(عکّاسی: عرفان نجمی) 

س: یعنی مغربی اقوام روحانیت کی تو قائل ہیں، لیکن اسے ذہنی قوتوں کے پس منظر میں تسلیم کرتی ہیں؟

ج: دیکھیں، روحانیت اور دماغی سائنسزکو ایک سمجھنا غلط ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہندویوگی اور سادھو بھی بعض مافوق الفطرت مظاہرے کرتے ہیں۔ مائنڈ سائنسز یہ واضح کرتی ہے کہ انسان اپنے ذہن کے وہ خلیات، جن کا تعلق ارتکازِ توجّہ سے ہے،بیدار کرسکتا ہے اور تب انسان میں اتنی قوّت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محض ارتکازِ قوت سے چمچ ٹیڑھا کرسکتا ہے یا میزکو اوپر اُٹھا سکتا ہے، لیکن اسلام میں روحانیت، مائنڈ سائنسز سے اس طرح علیحدہ ہو جاتی ہے کہ ہم اپنی اخلاقی اقدار ربّ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ڈیویلپ کرتے ہیں، جس سے روحانی قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں، جب کہ مائنڈ سائنسز اس سے اگلے مرحلے سے حاصل ہونے والے نتائج ڈسکس کرتی ہے۔

نماز میں ارتکازِ توجّہ کی انتہا حضرت علیؓ کے اُس واقعے سے ظاہر ہوتی ہے، جس میں آپؓ نے فرمایا’’میرے جسم میں پیوست تیر کواس وقت کھینچا جائے، جب مَیں حالت ِنماز میں ہوں۔‘‘ لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ مائنڈ سائنسز پر یقین رکھنے والے روحانی قوت نہیں پاسکتے۔ روحانی قوتیں صرف وہی پاسکتے ہیں، جو اللہ کی بندگی اور حقوق العباد ادا کرتے ہیں، جن کی روح نیکی اور عبادت کی وجہ سے بہت مضبوط اور طاقت وَر ہو جاتی ہے۔ 

اب مغربی سائنس دان طویل تجربات کے بعد انسانی جسم کے گرد بنے رنگین قدرتی ہالے (AURA) کو جسمانی اور ذہنی صحت کی کلید قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جسمانی ریاضت اور نفسیاتی مشقوں سے الیکٹرو میگنیٹک لہروں کے حامل مقناطیسی ہالےکو مستحکم کیا جاسکتا ہے، جب کہ ہمارے صوفیائے کرام اور قدرتی روحانی اسکالرز کے نزدیک صرف مثبت سوچ اور نیکیوں کے ذریعے ہی اس ہالے میں پوشیدہ انرجی فیلڈ مستحکم کی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ انسانی جسم میں 3.5 سے لے کر 5.5 وولٹ تک کا کرنٹ ہوتا ہے۔

س: ہمارے یہاں بعض لوگ روحانیت کے چکّر میں تصوّف کا لبادہ اوڑھ کر تارک الدّنیا ہو جاتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ج: ہماری مثال اُن نابینا لوگوں کی سی ہوگئی ہے، جن کے ہاتھ ایک ہاتھی لگ گیا اور وہ اپنے اپنے طور پر اس کی وجود کی تاویلیں پیش کرنے لگے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جب کہ ہم نے اس کا تھوڑا سا حصّہ اپنا کر کہا کہ یہی اسلام ہے۔ کچھ لوگ اسلام کو محض عبادت گرداننے لگے، کچھ نے اسے حقوق العباد تک محدود کردیا، کچھ لوگوں نے مجاہدوں، چلّوں اور ریاضتوں کو اسلام جانا، لیکن یہ اسلام کی جامع شکل نہیں ہے۔ جب تک اسلام کو ایک شٹل کاک برقعے کی طرح(یعنی پورا) نہیں اوڑھا جائے گا، تب تک اس کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ اسلام اور روحانیت کا نام ہی ایثار اور قربانی ہے۔ 

حقیقی تصوّف کا مقصد انسان کو ایثار و قربانی کی راہ پر چلنے کے لیے تیار کرنا ہے، لیکن ہم نے وہ راہ چھوڑ دی۔ جب کہ منزل کشف و کرامات کا حصول نہیں، رب تعالیٰ کی قربت اور دوستی کو پانا ہے۔حقیقی تصوّف تو اطاعت و بندگی کی طرف لے جاتا ہے، تو جب تک ہم اللہ کے آگے مکمل سرینڈر نہیں کریں گے، بات نہیں بنے گی۔ ان ساری وجوہ کی بنا پر تصوّف بدنام ہوگیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ جگہ جگہ اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تصوّف اور روحانیت آخر ہے کیا۔ کچھ ایسے اہل فقر جو کبھی اس راہ پر چلے ہی نہیں تھے، اُن کی وجہ سے بعض علما یہ کہتے ہیں کہ تصوّف اوراسلام، دو مختلف راستے ہیں۔ مَیں اُنہیں بھی غلط نہیں کہتا کہ ایسا وہ ان لوگوں کو دیکھ کر کہتے ہیں، جو بظاہر تو تصوّف سے جُڑے ہیں، لیکن عملی طور پر اُس سے کوسوں دُور ہیں۔

س: جیسا کہ آپ نے کہا، ’’روحانیت، ربّ سے دوستی کا نام ہے‘‘ لیکن اس دنیا میں جہاں قدم قدم پر مادّیت پرستی کے کوہِ گراں کھڑے ہیں، اس راہ پر چلنا مشکل نہیں؟

ج: جی، ایک زمانہ تھا کہ جب ہم سُنتے تھے کہ دنیا اور روحانیت کو اکٹّھے لے کر چلنا بڑا مشکل کام ہے، مگر ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں تھا بلکہ ہم مذاق اڑاتے تھے کہ بھلا اس میں کیا دشواری ہوسکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عنایت کردی کہ بڑے شاہ صاحب(میرے پیرو مرشد سیّد یعقوب علی شاہ صاحب) مل گئے۔ مَیں جب بھی اُن کے پاس بیٹھتا، دل میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا۔ جب ایسی عادت پڑ جائے تو تنہائی اچھی لگنے لگتی ہے۔ اُن ہی دنوں ایسا ہوا کہ جی ٹی روڈ پر ایک چھوٹا سا قطعۂ اراضی پسند آیا اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ مل بھی گیا۔ وہاں دُور دُور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ خیال تھا کہ یہاں دو کمروں کا چھوٹا سا گھر بنا کر اللہ اللہ کروں گا۔

پھر شاہ صاحب کو یہ خوش خبری سُنا کر انہیں وہاں چلنے کی دعوت دی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے اس فیصلے کو خُوب سراہیں گے، لیکن خلافِ توقع وہ میری بات سُن کر کہنے لگے’’تم یہ کیا کرنے لگے ہو،یہ کون سی بہادری ہے کہ تم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرو، یہ تو کوئی بھی کرلےگا۔ کمال تو یہ ہے کہ تم دنیا میں پوری طرح رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلو‘‘۔ جس پر مَیں نے کہا کہ ’’حضور! یہ کون سا مشکل ہے، یہ بھی کرلیتے ہیں‘‘ لیکن اب اندازہ ہورہا ہے کہ جو بزرگ فرما گئے ہیں کہ ’’ایک ہاتھ میں دنیا،دوسرے میں دین رکھ کر اس طرح جینا کہ توازن نہ بگڑے۔‘‘ بہت مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں۔

حقوق العباد کی ادائی، قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے

س: نیکی کی مختصر ترین تعریف کیا ہے؟

ج: میرے نزدیک نیکی کی مختصر ترین تعریف دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا اور تقسیم کرنا ہے۔

س: اہلِ علم و دانش کی محافل میں دُعاکا موضوع ہمیشہ سے زیرِ بحث رہا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

ج: دُعا بظاہر ایک سادہ سا عمل ہے، ہر روز کرّۂ ارض پر متعدّد افراد اپنے اپنے مذاہب کے مطابق ایک مقتدر ہستی کے حضور دُعائیں مانگتے ہیں۔ لیکن یہ قدرے پیچیدہ فلسفہ بھی ہے، کسی کی دُعا فوراً، کسی کی تاخیر سے قبول ہوتی ہے، تو کسی کی قبول ہی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی دیکھیے کہ قاتل بھی اللہ تعالیٰ سے بَری ہونے کی دُعا مانگتا ہے اور مظلوم بھی انصاف کی التجا کرتا ہے۔

اب کس کی دُعا قبول ہوتی ہے، کس کی نہیں، یہ بھید تو رب ہی جانے۔ یاد رہے، دُعا مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی، موجودہ رنگ میں پہنچی ہے۔ سب سے پہلے ہندو ازم میں دعا میں توہمّات شامل ہوئے۔ یہ وہ دَور تھا، جب انسان ارتقا اور نشوونما کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ سادھوؤں، برہمنوں نے یہ تاثر دیا کہ جو لوگ خدا سے قریب ہوتے ہیں، وہ ان کی سُنتا ہے۔ انہوں نے بھگوان کومٹیریل کی شکل دے کر بُت بنا دیا۔ 

یہی حالت ڈارک ایجز میں یورپ کی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑنے غلط فہمیاں دُور کیں اور بتایا کہ اللہ تک بلا واسطہ پہنچا جاسکتا ہے، لیکن بعدازاں پادریوں نے یہ طریقہ متعارف کروایا کہ آپ ہمارے پاس آئیں، اعترافِ جرم کریں، ہم آپ کے لیے دُعا کریں گے اور آپ آخرت میں بچ جائیں گے۔ لیکن جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے ،تو انہوں نے ایسی تمام روایات، حکایات، توہمّات وغیرہ کی نفی کردی، جنہوں نے دعا کی حقیقت کو گہنا دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ربّ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور وہ اپنے بندوں کی ہر زبان،ہر مقام سے کی جانے والی فریادیں سنتا ہے۔ 

خود فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’مَیں تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔‘‘ ’’تم پکارو، مَیں تمہاری پکار کا جواب دوں گا۔‘‘ حتیٰ کہ عبادت کے سلسلے میں بھی آپؐ نے یہ واضح کردیا کہ عبادت کے لیے مسجد کی پابندی نہیں، ساری زمین، اگر اُس پر گندگی نہیں ہے، تو وہ گویا پاک ہے۔اس طرح آپؐ نے یہ فرمایا کہ اللہ سب کی دُعا سنتاہے، کسی کو صاحبِ دُعا کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ، اس میں ایک بنیادی شرط ہے، اور وہ ہے ’’مان‘‘۔ یہ وہ شرط ہے، جو کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ یعنی اپنے ربّ تعالیٰ کے بارے میں یقین ہو کہ ربّ مجھے کبھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔ یہ مان، دُعا کی قبولیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچّہ بڑے مان سے اپنے ماں باپ سے کھلونے کی ضد کرتا ہے۔ اس کا یہ اصرار، ضد یا گستاخی نہیں، بلکہ مان ہوتا ہے کہ میرا ابّا میری فرمائش پوری کردے گا۔ اپنے ربّ سے بہت پیار سے، اصرار کرتے ہوئے کہیے کہ ’’مَیں تیرے سوا کسی کو نہیں جانتا، بس مجھے فلاں چیز سے نواز دے۔‘‘ تو یہ آپ کا مان ہوگا، پھر اللہ کے لیے تو اُس کا ہر بندہ ہی عزیز تر ہے، وہ گناہ گار، نیکو کار سب کی دُعائیں سُنتا ہے۔

س: بزرگوں، اللہ کے نیک بندوں کے ہاں دُعائیہ اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟

ج: بالکل، اس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں۔ اجتماعی دُعا، ہمارے ہاں دینی اجتماعات کے اختتام کا ایک مستقل روحانی سلسلہ ہے۔ انفرادی دعا اپنی جگہ، لیکن اجتماعی طور پر عالمِ اسلام اور پوری نوعِ انسانی کے لیے رحمتوں اور برکتوں کی خواہش ایک نیک عمل ہے۔

مَیں اپنے ہاں دُعا کے لیے آنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا بلکہ اُن سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ خود بھی اللہ کے حضور جھولی پھیلائیں کہ وہ ہر ایک کی سُنتا ہے۔ برّصغیر میں ہمارے بزرگانِ دین دُعا کے لیے آنے والوں تک اللہ کا پیغام بھی پہنچاتے تھے۔ دُعا، دراصل خلقِ خدا کو ربّ کی طرف مائل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

س: جو دُعائیں قبول نہیں ہوتیں، کیا اللہ تعالی سے اُن پر شکوہ کرنا چاہیے؟

ج: تاخیر میں بھی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ انسانی دماغ کے تین لیولز ہیں، شعور، لاشعور، تحت الشعور۔ ہمارا شعور جب دُعا کرتا ہے، تو یہ لاشعور میں منتقل ہو جاتی ہے، پھر لاشعور اس وقت تک دُعا کرتا رہتا ہے، جب تک یہ قبول نہیں ہو جاتی۔ پھر دُعا کے بعد ہمارے اندر جو ایک سکون کی سی کیفیت در آتی ہے، تو اس کے پیچھے دراصل لاشعور میں ہونے والی دُعا ہی ہوتی ہے۔

بہرحال، بنیادی شرط یہ ہے کہ دُعا مانگتے وقت یقین ہونا چاہیے کہ بعض اوقات جو ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتیں، تو اس کے پیچھے بھی کوئی مصلحت ہوسکتی ہے، جس کا اُس وقت محدود انسانی ذہن ادراک نہیں کرسکتا۔ حضرت علیؓ کی جب کوئی دُعا پوری ہوتی، تو وہ سجدۂ شُکر بجا لاتے اور جب پوری نہ ہوتی تو تب بھی سجدۂ شکر ادا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے نقصان دہ چیز کو میرے حق میں پورا نہ کیا۔

حقوق العباد کی ادائی، قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے

س: دنیا کے اکثر مذاہب میں ’’قربِ الٰہی‘‘ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد رہا ہے۔ آپ کے نزدیک قربِ الٰہی یا ربّ کو پانے کا آسان طریقہ کیا ہے؟

ج: تاریخِ انسانی سے ظاہر ہے کہ مختلف ادوار میں لوگوں نے اعلیٰ و ارفع غیرمرئی ہستی کوپانے کے لیے جنگلوں، بیابانوں، صحرائوں، غاروں،خانقاہوں اور پہاڑوں کی خاک چھانی۔ اب اگر ان پر بات کروں، تو بحث لمبی ہو جائے گی۔ سلوک کی راہ اور منزل، دونوں ہی ایسی ہیں، جہاں عقل کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں اور نہ کوئی شارٹ کٹ کام آسکتا ہے۔ مختصراً یہ کہ معاملہ شروع ہوتا ہے، اللہ کی اطاعت سے اور اطاعت بھی وہ نہیں، جو ہم کرتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی سیلکٹیو ہوگئے ہیں۔ 

جو احکامات ہمارے مطابق/مَن پسند ہوتے ہیں، اُن پر عمل کرتے ہیں اور جو نہیں بھاتے، ان پر عمل نہیں کرتے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ میرے نزدیک قربِ الٰہی کا آسان ترین طریقہ اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کس طرح کی زندگی چاہتا ہے۔ قرآنِ حکیم، احادیث اور سنّتِ نبویؐ کی موجودگی میں ہمیں کسی اور ہدایت کی ضرورت نہیں۔ آپؐ کی حیاتِ مبارکہ، تفسیرِ قرآن ہے۔ 

قربِ الٰہی سے جڑا دوسرا اہم ترین پہلو حقوق العباد ہے۔ نماز اور روزے کی تلقین تو بچپن ہی سے ہمارے لاشعور میں جڑ پکڑ لیتی ہے، لیکن سیکڑوں دیگر احکامات کی تکمیل حقوق العباد کی ادائی سے جُڑی ہے۔ وہ انسان، جو دوسروں کے ساتھ تمام معاملات میں قربانی سے کام لیتا ہے، چاہے قربانی وقت کی ہو یا مال کی، پھر اس کا ذکر تک نہیں کرتا، تو وہ اپنے ربّ کو جیت لیتا ہے۔ بظاہر یہ آسان لگتا ہے، لیکن اس راہ میں خطرناک گھاٹیاں آتی ہیں، شیطان ہر قدم پر رکاوٹ ڈالتا ہے، لیکن یاد رکھیں، بہترین انسان وہ ہے، جس کی ذات دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔

س: کچھ لوگ ربّ کو پانے کے لیےچلّے، وظیفے اور مجاہدے بھی تو کرتے ہیں؟

ج: بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں وظائف کا چلن عام ہوگیا ہے اور جس محنت اور جدّوجہد کا ربّ تعالیٰ نے حکم دیا تھا، وہ ہم فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہم نے وظیفے، تسبیح کو محنت کا نعم البدل سمجھ لیا۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پاس تشریف لانے والوں کو سمجھاؤں کہ رب تعالیٰ نے اس کائنات کو عالم الاسباب بنایا ہے، جس میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے۔ حتیٰ کہ موت بھی بلاسبب نہیں آتی۔ قرآن میں واضح فرمان ہے کہ ’’انسان کو وہی ملتا ہے، جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ رب ہمیں اپنا دوست بنائے، تو پہلے ہمیں اُسے اپنا دوست بنانا ہوگا اور ایک اچھا دوست، بات ماننے سے کبھی انکار نہیں کرتا۔

س: قرآنِ حکیم نے بار بار کائنات پر غور و فکر کا حکم دیا ہے۔ سائنس دانوں کے علاوہ کیا کوئی عام مسلمان بھی اس پر عمل کر کے قربِ الٰہی حاصل کرسکتا ہے؟

ج: کائنات پر غور و فکر سے ربّ تعالیٰ کی حکمتوں اور نشانیوں کے نئے نئے جہاں منکشف ہوتے ہیں۔ایک مومن کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کرے۔ ہمارے آبائواجداد مسلمان سائنس دانوں نے یہ لائحہ عمل اپنا کر دنیا کی کایا ہی پلٹ دی، جس سے آج بھی یورپ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نےغور و فکر کی عادت ترک کردی۔ جدید تھیوری ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، یہ تصوّر قرآنِ حکیم نے کئی سو سال پہلے دے دیا تھا۔ اہلِ معرفت اسی لیے کہتے ہیں کہ ایجاد نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں کہ جوں جوں ہمارا علم بڑھ رہا ہے، ہم اوجھل چیزیں دریافت کرتے جا رہے ہیں۔ 

یعنی چیزیں تو پہلے سے موجود ہیں، بس ہمیں اُن کا علم نہیں تھا۔ انسان نے اب تک 19666 علوم اپنی محنت سے دریافت کیے ہیں۔ اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ہمارے ہزارسال اور اللہ تعالیٰ کے ایک دن کے کیا معنی ہیں، ایک کائنات یا سیّارے میں وقت کی رفتار، دوسری کائنات سے مختلف ہوگی؟‘‘ تو جن سیاروں تک انسان نے رسائی حاصل کی ہے، وہاں دن اور رات کی لمبائی ہماری زمین سے مختلف ہے۔ ربّ تعالیٰ کے یہاں بھی وقت کے تعیّن کا اسکیل مختلف ہے۔ 

ہمارا ایک دن، ربّ تعالیٰ کے کتنے منٹ کے برابر ہے، اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس سیارے پر ہیں اور اس کے محور کے گرد گھومنے کی رفتار کیا ہے۔تصوف میں ہے کہ پوری کائنات میں 70 ہزارجہاں، 20 ہزار عالم ہیں۔ عالم ہمارا ایک یونٹ ہے، جیسے زمین کا اپنا چاند اورسورج ہے۔ مختصر یہ کہ کائنات پر جوں جوں غور کریں، اللہ کی حقّانیت اور شانِ کریمی سامنے آتی ہے اور بندہ رب سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآنی سورتوں پر تحقیق کرکے اب تک کتنے ہی غیر مسلم سائنس دان حلقہ بگوشِ اسلام ہو چُکے ہیں، ہمارا تو یہ اپنا شان دار وَرثہ ہے، پھر ہم غور کیوں نہیں کرتے۔

س: کیا تقدیر کا مسئلہ بھی قربِ الٰہی سے جڑا ہے کہ بعض لوگ بُرے سے بُرے حالات میں بھی اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں، کوئی جدّوجہد نہیں کرتے۔

ج: بعض لوگ بُرے حالات پر قانع رہ کر سوچتے ہیں، اس کا اجر آخرت میں ملے گا، مگر اسلام ایسا درس نہیں دیتا۔ ربّ تعالیٰ نے کسی انسان کی قسمت یا مقدّر اس طرح تحریر نہیں کیا کہ کوئی شخص پیدائشی مجرم یا پاک باز، امیر یا غریب ہوگا۔ یہ انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال سے اپنی قسمت کا تعیّن کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ ہم جو چاہے سوچیں، فیصلہ کریں اورجس راستے پر چل پڑیں، ہمیں کوئی فرشتہ آکراس پر عمل سے نہیں روکے گا۔ 

البتہ، ربّ تعالیٰ ہمیں روزمرّہ زندگی کے معمولات سے متعلق انتباہ ضرور دیتا ہے۔ اسلام، صداقت، جدّوجہد اور سعی و عمل کا دین ہے۔ ہاں، تقدیرِ معیّن (جیسے موت) وغیرہ طے شُدہ ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے ایسی معین تقدیرات صرف پانچ ہیں۔ باقی تقدیر معلّق ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر چھوڑ دی ہے ۔ اسلام میں تقدیر کے مقابلے میں تدبیر کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس لیے جو لوگ غربت یا بُرے حالات کو اللہ کا لکھا سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں، حالات بدلنے کی کوشش و جستجو نہیں کرتے، غلط کرتے ہیں۔

س: دیگر مذاہب اور ادیان کا اسلام سے مقابلہ کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

ج: جب سے انسان کو شعور حاصل ہوا، اس کی رہنمائی کے لیے انبیائے کرامؑ اور مختلف مذاہب، ادیان کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ اوربات ہے کہ انبیائے کرامؑ اور دیگر روحانی قائدین کی تعلیمات وقت کے ساتھ ساتھ مسخ ہوتی گئیں۔ انبیائے کرامؑ کی تعلیمات میں لوگوں نے ازخود اضافے کرلیے۔ ہندو مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں تقریباً چھے،سات ہزار سال پرانا شمار ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے ربّ کی صفات بُتوں میں ڈھال کر اسے لکشمی دیوی کا نام دے دیا۔ ہندو مذہب اب محض رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ 

اسی طرح سوائے دینِ اسلام کے دیگر مذاہب کی حقیقی تعلیمات بھی مسخ ہو چُکی ہیں۔ قرآن کی حفاظت کا ذمّہ خود اللہ پاک نے لیا ہے، اس لیے یہ رہتی دنیا تک محفوظ رہے گا۔ جہاں تک تقابل کی بات کی ہے، تو میرے نزدیک بچے کھچے مذاہبِ عالم کی ایک نشانی یہ ہے کہ تمام الہامی مذاہب کی ’’Dos اور Don’ts ‘‘کی فہرست قریباً مشترک ہے۔

ایک سچّا مسلمان ہمیشہ دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھتا،خامیوں سے صرفِ نظر کرتا ہے، لہٰذا ہمیں ان ادیان اور دین اسلام میں مشترک احکامات کو دیکھنا چاہیے۔ یہ رویّہ اپنا کر ہم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے قریب لاسکتے ہیں، جس سے بھائی چارے کو بھی فروغ ملے گا اور اسلام تو ہے ہی امن و سلامتی کا دین۔

س: یعنی بحث مباحثے سے گریز کرنا چاہیے؟

ج: بحث مباحثے سے تلخیوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہلاکو خان نے بغداد شہر اور اس کے کتب خانے جلا کر خاکستر کیے، تو اس وقت خلیفہ کے دربار میں ادیانِ عالم کے تقابلی مناظرے زوروں پر تھے اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

س: آپ اکثر کہتے ہیں ’’قرآنِ حکیم کو سُننا بھی خیر و برکت ہے‘‘ لیکن اس کی تلاوت زیادہ افضل ہے۔ سورۃ الرحمٰن کے بارے میں کیا کہیں گے کہ اکثر لوگ امراض کے خاتمے کے لیے اسے سنتے ہیں، کیا واقعی یہ شفایابی کا ایک وسیلہ ہے؟

ج: قرآنِ حکیم میں سورۂ رحمٰن کو خصوصی فضیلت حاصل ہے اور اس سے ملنے والی شفایابی اب سائنسی کسوٹی پر بھی ثابت ہو رہی ہے۔ کئی غیرمُلکی اسپتالوں میں بھی اس کے مثبت اثرات سے فائدہ اٹھا کر اس پر ریسرچ پیپرز لکھے جا رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں تو پی ٹی وی پر یہ سلسلہ برسوں قبل ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس وقت لاہور اور اسلام آباد کے کئی اسپتالوں میں یہ مریضوں کو سنوائی جاتی ہے۔ 

بلاشبہ، اس کے سننے میں بھی شفایابی ہے، لیکن مَیں نے ذاتی طور پر اسے سننے کے ساتھ پڑھنے اور تلاوت کرنے کے بھی حیرت انگیز نتائج دیکھے ہیں۔ اس لیے مَیں اکثر اس کی تلاوت کی بھی تلقین کرتا ہوں۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ مَیں اکثر لوگوں سے جب قرآنِ پاک کی تلاوت کثرت سے کرنے کا کہتا ہوں، تو وہ پوچھتے ہیں کہ ’’ترجمے کے ساتھ پڑھیں؟‘‘تو مَیں کہتا ہوں کہ ’’پہلے تلاوت کر لیجیے۔‘‘قرآنِ حکیم کا یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ جب ہم اسے بار بار پڑھتے ہیں، تو نہ صرف اس کے معنی عیاں ہو جاتے ہیں بلکہ ان الفاظ میں چُھپے برکتوں کے خزانے بھی صوتی ارتعاش کے ساتھ ہمارے جسم میں منتقل ہوتے جاتے ہیں۔

س: یہ بھی تو تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ لفظوں سے پیدا ہونے والا ارتعاش جسم میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے، تو کیا اس اعتبار سے بھی ذرا اونچی آواز میں تلاوت کرنا احسن ہے؟

ج: جی، روزانہ نت نئی تحقیق سے قرآنِ حکیم کی نشانیاں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ چند برس قبل ایک جاپانی سائنس دان نے پانی پر آیاتِ قرآنی اور اسمائے حسنہ پڑھ کر پھونکیں، پھر انتہائی طاقت وَر مائکرواسکوپ کے ذریعے پانی میں کرسٹل کے بننے والے خُوب صُورت نمونے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ ہر لفظ کا نمونہ مختلف تھا اور اب تو سائنسی طور پر معلوم ہو چُکا ہے کہ آیات قرآنی، اسمائے الٰہی کو پڑھنے سے پیدا ہونے والا ارتعاش، ذہنِ انسانی کے خلیوں پر متحرک ہو کر پورے جسم میں مثبت اثرات پیدا کرتا ہے اور یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ 

تاہم، اس کے لئے قوّتِ ارتکار ضروری ہے۔ یوں تو پورے کا پورا قرآن ہی شفا ہے، لیکن بالخصوص سورۂ ٔرحمٰن ماہرین، محققین کی توجّہ کا مرکز ہے۔ نیز، انسانی خیال اور سوچ میں بھی قدرت نے بے پناہ طاقت رکھی ہے، اگر اسے نیکی کے پیرائے میں دیکھیں تو نیکی دراصل مثبت سوچ اور عمل کا نام ہے۔ نیکی اور مثبت سوچ ذہن کو اس طرح متحرک کر دیتی ہے کہ انسان زبان و مکان سے ماورا ہو جاتا ہے۔ سائنس اور مغربی دنیا نے اسے’’ Distance Viewing ‘‘کا نام دیا ہے۔ 

سائنس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ مخصوص الفاظ کی ادائی سے جب زبان ایک مخصوص زاویے سےتالو کو چُھوتی ہے، تو اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش انسان میں مثبت تبدیلیاں اور انرجی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ قرآن پاک کی تلاوت کم از کم اتنی آواز میں ضرور کریں کہ وہ آواز آپ خود سُن سکیں کہ اس کا یک ایک حرف اپنے اندر غیر مرئی قوّت رکھتا ہے، جسے غیر مسلم پاوَر اور ہم انوار، اثرات اور تجلّی کہتے ہیں۔

س: دَورِ حاضر میں جب کہ ہر دوسرا، تیسرا پاکستانی کسی نہ کسی جسمانی، ذہنی مرض کا شکار ہے، کیا طبّ نبویؐ ہمارے مسائل کا حل ہے؟

ج: حضورؐ کی حیاتِ مبارکہ کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ نہ ہو۔ حضور ؐ کی زندگی سادگی کا بہترین نمونہ تھی۔ اس وقت پاکستان میں بیماریوں کی جو صورتِ حال ہے، بدقسمتی سے اس میں خود ہمارے اپنے طرزِ زندگی اور عادات کا بنیادی ہاتھ ہے۔ بلاشبہ، آج کا دَور، سیکڑوں سال پہلے سے یک سر مختلف ہے، لیکن سادہ اور متوازن خوراک آج بھی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ 

عہدِ حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ملنے جلنے، دُکھ درد بانٹنے کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے۔ کسی کو بھی ایسا کندھا میسّر نہیں، جس پر سر رکھ کر دکھ درد بانٹا جاسکے۔ صحت میں نظامِ ہضم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ مَیں اس سلسلے میں بغیرچھنے گندم کے آٹے میں 40فی صد جو کا آٹا ملا کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ بریڈ سے کہیں بہتر ہے، اس کے علاوہ زیتون کا تیل، شہد، جَو کا دلیہ، کھجوریں، دوپہر کا قیلولہ، رات کی بھرپور نیند، اچھا ناشتا، صبح کی چہل قدمی، بھوک رکھ کر کھانا، یہ سب چیزیں اچھی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آپؐ کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی، ہم بھی سنّتِ نبویؐ پر عمل پیرا ہو کر صحت مند زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

س: نماز کی باقاعدگی ذیابطیس کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے؟

ج: اگر شوگر موروثی نہ ہو، تو اس کی وجہ عموماً ورزش کا فقدان ہوتی ہے، نماز جسم کو ایکٹیو رکھتی ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی یوگا ایکسر سائز ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا کی ورزش ہو جاتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف ذیابطیس بلکہ بلڈپریشر اور دیگر کئی امراض سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جب انسان ربّ تعالیٰ کے سامنے جُھکتا ہے، تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی آل ٹائم، پاور فُل طاقت ہے، جو میری نگہبان اور مددگار ہے۔ یہ وہ احساسِ تحفّظ ہے، جس کی انسان کو ہر عُمر میں ضرورت رہتی ہے۔

س: حالیہ سیلاب کے بارے میں کیا کہیں گے، یہ قدرتی آفت ہے یا ہمارے گناہوں کی سزا؟

ج: مجھے ٹی وی پر یہ دیکھ کر دُکھ ہوا کہ سندھ کے ایک با اثر صاحب، سیلاب کو گناہوں کی سزا قرار دے رہے تھے، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ گناہوں کی سزا صرف غریبوں اور معصوم بچّوں ہی کو کیوں ملے گی، اُس سے محلّات میں رہنے والے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ دیکھیے، جب سے کرّہ ارض وجود میں آیا ہے، آفاتِ ارضی و سماوی اس کا ایک حصّہ ہیں۔ قومِ عاد، ثمود اور لوط جیسی نہ جانے کتنی اقوام اپنے گناہوں کی پاداش میں نیست و نابود ہو کر عبرت کا نشان بن گئیں، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان قدرتی آفات پر قابو پانے کی صلاحیت بھی عطا کی۔ 

ہالینڈ کے سیلابی ریلے، چین کے YELLOW RIVERوغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ،جنہوں نے قدرتی آفات کو راحتوں میں بدل دیا، لیکن جہاں تک گناہوں کی پاداش کا تعلق ہے، تو یہ کارخانۂ قدرت سرگرمِ عمل ہی اس لیے ہے کہ ہر عمل کا نتیجہ مرتّب ہو سکے۔ سیدھی سی بات ہے، اگر آپ سیلاب سے بچائو کے لیے غیر معیاری اور کرپشن سے آلودہ ڈیمز، حفاظتی پشتے اور بند بنائیں گے، تو وہ سیلاب کے آگے ریت کی دیوار ہی ثابت ہوں گے۔ پھر جب حفاظتی بند، اوور فلو جھیلوں کا رُخ دانستہ طور پر بااثر افراد کی املاک کو بچانے کے لیے شہری آبادیوں کی طرف موڑا جائے گا، تو تباہی تو ہوگی۔

بدقسمتی سے ہم ہر دوسرے تیسرے سال سیلاب کا سامنا کرنے کے با وجود اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ اصل میں ہم کسی سِسٹم کے تحت زندگی گزارنا ہی نہیں چاہتے۔ دریائوں کے پاٹوں اور سیلابی گزرگاہوں کے گرد آبادیاں قائم کرنے اور ٹمبر مافیا کے ذریعے شجر کاری کا خاتمہ ہماری ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ 

جب پاکستان بنا تھا، تو 34 فی صد رقبے پر جنگلات تھے، آج یہ رقبہ صرف چار، پانچ فی صد رہ گیا ہے۔حالات اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوں گے، جب تک ہم کل کے لیے، آج منصوبہ بندی نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے کالا باغ ڈیم ناگزیر ہے،اس کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی کے فلور پر سب جماعتوں کا مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے اور اس میں میڈیا کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

س: آپ کا روحانیت کا سفرکیسے شروع ہوا؟

ج: مَیں نے نیک اور پارسا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ ایک عام سا اللہ کا بندہ ہوں۔ دراصل میری والدہ اس راہ پر تھیں اور مَیں چوں کہ اُن سے زیادہ قریب تھا۔ اس لیے اس طرف راغب ہوگیا۔ مجھے چوتھی اور پانچویں جماعت میں درسی کتابوں میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ مختلف شخصیات پر کہانیاں تھیں، جن کی وجہ سےنو، دس سال کی عُمر ہی سے حضرت علیؓ کو آئیڈیلائز کرنے لگا تھا۔ اور پھر وہی کہانیاں میرے لیے ڈائیونگ فورس بن گئیں کہ میں اس راہ پر چلوں۔

بچپن میں اذان دینےکے لیے مسجد جا کھڑا ہوتا،نابالغ ہونے کی وجہ سے لوگ روکتے، لیکن امامِ مسجد مجھے شوق کی وجہ سے اجازت دے دیتے اور پھر پانچ منٹ بعد دوبارہ اذان ہوتی۔ اللہ کو پکارتا رہتا،یہ سلسلہ چلتا رہا،وقت گزرتا گیا اور مَیں تعلیمی مدارج طے کرتا ملازمت سے وابستہ ہوگیا۔ اسی دوران لاہور کینٹ میں قیام کے دوران ایک فوجی افسر نےمیرے شوق کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب سے ملوایا۔ جب ہم اُن کے پاس پہنچے، تو انہوں نے کہا ’’میاں! تم نے آنے میں بہت دیر کر دی۔ تمہاری شکل پہلے ہی دکھا دی گئی تھی کہ تمہارا حصّہ میرے پاس ہے۔‘‘ بس ایسے میرے سفر کا آغاز ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔

س: سفرکا حاصل کیا رہا؟

ج: دنیا کی بھول بھلّیوں میں گُم انسان، جب کسی خوش بخت لمحے میں رازِ قدرت کھوجنے نکلتا ہے، تو پھر اُس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ زندگی تو رب تعالیٰ کی بندگی، خوشنودی اور معرفت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لیکن یہ معرفت اُس وقت نصیب ہوتی ہے، جب دل آلائشوں سے پاک ہو۔ میرے نزدیک انسان کو اس طرح زندگی گزارنی چاہیے کہ عبادت تو ربّ کے لیے کی جائے اور زندہ دوسروں کے لیے رہا جائے۔ یوں عبادت اور نیکی یک جا ہو جائے، تو ربّ تعالیٰ کی دوستی اور قربت نصیب ہو جاتی ہے۔

س: آپ کے خیال میں پاکستان کے غیر یقینی حالات کب ختم ہوں گے؟

ج: موجودہ مسائل آج کی پیداوار نہیں، یہ پچھلے چار، پانچ عشروں کا نتیجہ ہیں۔ اگر آپ قیامِ پاکستان کے بعد خاص ترتیب سے دیکھنا شروع کریں اور ہر چار، پانچ سال بعد معاملات کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ ہم ہر پانچ سال بعد بہت بُری طرح زوال کا شکار ہوئے اور ہر معاملے میں بتدریج نیچے کی طرف آئے اور یہی ہمارے زوال کی بنیادی وجہ ہے۔ترقّی یا فتہ ممالک کے بچّوں اور ہمارے بچّوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے نصاب میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔

وہ بچّوں کوکتابوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے، جب کہ ہمارے ہاں کلاس اوّل ہی سے بچّوں پر اتنی کتابیں لاد دی جاتی ہیں کہ ان کی کمر ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور وہ تعلیم سے بےزار ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم صرف چائلڈ ایجوکیشن ہی ٹھیک کر لیں، تو ہمارے 90فی صد مسائل ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ نیز، ہمارے حالات اُس وقت ٹھیک ہوں گے، جب ہمارے بچّے اپنے گھروں میں دیانت داری کے نمونے دیکھیں گے اور ہمارے لیڈرز کی شخصیت مثالی ہوں گی۔ اگرہم اپنے رویّے درست کر لیں، تو پھر یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ ’’اس حکمران کو اتارو، دوسرے کو لائو۔‘‘

س: اپنے خاندان سے متعلق بھی کچھ بتایئے؟

ج۔ میرا تعلق سید گھرانے سے ہے ،جو عرب سے ہجرت کرکے ہندوستان ، پھر 1947ء میں ہندوستان(جالندھر )سے ہجرت کرکے پاکستان (لاہور)میں آبسا۔ پر دادا سوِل سروس میں اور دادا بھی ملازمت پیشہ تھے، جب کہ والدسید ممتاز احمدکا تعلق فوج کی انجینئرنگ برانچ سے تھا۔ والدہ، شیخ عبدالقادر جیلانی کی لڑی سے ہیں، تو والد سید امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے ہیں۔مَیں نے 1966ء میں عملی زندگی کا آغاز کیا۔ الحمد ُللہ ، شادی شدہ اورپانچ بچّوں( تین بیٹوں، دو بیٹوں)کا باپ ہوں۔ دونوں بیٹے بھی ملازمت پیشہ ہیں۔

س: کیا بھائیوں میں سے کوئی روحانی سلسلے کی طرف آیا؟

ج: جی نہیں، میرا تو خیال ہے کہ اگر والد صاحب حیات ہوتے تو وہ مجھےبھی اس طرف نہ آنے دیتے۔

س: آپ باریش نہیں ہیں، لباس بھی ماڈرن پہنتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: داڑھی بہت ہی پیاری سنّتِ نبویؐ ہے، لیکن اسے میری نالائقی سمجھ لیں کہ مَیں نہیں رکھ پاتا۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے، تو اسلام میں مخصوص لباس کی کوئی پابندی نہیں۔ البتہ، لباس ایسا ہونا چاہیے، جس سے ستر پوشی ہو، جو بےحیائی کے زمرے میں نہ آتا ہو۔

س۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’آپ کے پاس موکّل ہیں‘‘، کیا واقعی ایسا ہے؟

ج۔ ایسا نہیں ہے، موکّل ہوتے ضرور ہیں، لیکن اُن سے دنیاوی کام نہیں لیے جا سکتے۔ نیز، عالم الغیب صرف ربّ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہاں، وہ جسے جتنا علم چاہے، عطا کر دے۔ سیّد یعقوب علی شاہ میرے مرشد، میرے استاد تھے اور مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا، لیکن اس علم سے مراد علمِ غیب نہیں۔

س:زندگی میں کسی موقعے پر رونا آیا؟

ج: زندگی میں مشکلات تو آتی ہیں، لیکن مَیں اپنی والدہ کی وفات کے علاوہ کسی موقعے پر نہیں رویا۔ ویسے بھی جب میرا ربّ موجود ہے، تو مجھے رونے کی کیا ضرورت۔

س: پُرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟

ج: لوگوں میں خوشیاں بانٹیں، یہی پُرسکون زندگی کا راز ہے۔ اور خوشیوں سے مُراد مال و دولت بانٹنا ہی نہیں، کبھی کبھار آپ کی ایک مُسکراہٹ بھی کسی کے دُکھی دل کے لیے مرہم بن سکتی ہے۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: مَیں بہت سادہ کھانا کھانے کا عادی ہوں اور عام طور پر دیسی کھانے ہی پسند کرتا ہوں۔ سمجھیں، مَیں ’’کم کھانے میں راحت ہے‘‘کے اصول پر کاربند ہوں۔

س: زندگی کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟

ج: ہر انسان کی طرح میرا پورا دن بھی روزی روٹی کمانے اور خاندان والوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ میرا تعلق بنیادی طور پر بزنس ایڈمنسٹریشن سے ہے اور اس وقت پاکستان کے ایک بہت بڑے گروپ کے لیے اپنی خدمات پیش کررہا ہوں۔ دفتر کے بعد سارا وقت فیملی کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتا ہوں کہ بحیثیت شوہر، باپ اور بھائی میرے اوپر کچھ ذمّے داریاں ہیں، جنہیں احسن طریقے سے ادا کرنا میرا فرض ہے۔

س: شکار کا بھی شوق ہے کہ آپ کے کمرے کی دیواروں پر حنوط شُدہ ہرن اور شاہین لگے ہیں؟

ج: کسی زمانے میں شوق تھا۔ 1977ءمیں جب یہ پڑھا کہ بلاوجہ محض زبان کے چسکے کی خاطر جانوروں کو مارنا منع ہے، اس کے بعد سے یہ شوق بھی ترک کردیا۔

پچھلے آرٹیکل

Scroll to Top