عامر خاکوانی
هفته 01 اکتوبر 2022ء
تصوف صدیوں سے مسلم تہذیب اور فکر کا بہت اہم حصہ رہا ہے۔ مسلم تاریخ کی بہت سی نامور شخصیات تصوف کے سکول آف تھاٹ سے وابستہ رہیں، بے شمار بہترین دماغ اور غیر معمولی زہدوتقویٰ کے حامل لوگوں نے اس حوالے سے لاکھوں لوگوں کی تربیت کی اورانسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ تصوف کے حوالے سے خاصا کچھ لکھا گیا اورکئی کتابیں ایسی ہیں جو صدیوں سے روحانیت کے طلب گار افراد کی علمی ، روحانی تشنگی مٹا رہی ہیں۔ ان کتب کا ایک حصہ اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے ایک مشکل ہے کہ بیشتر تراجم کی تسہیل ہونا ضروری ہے۔ پھریہ بھی ہے کہ کچھ کتابوں کی زبان فلسفیانہ اوردقیق ہے،۔عام طالب علم (سالک)انہیں آسانی سے نہیں سمجھ سکتا۔ایک عملی مشکل یہ ہے کہ بعض کتب صوفیا کے خطوط پر مشتمل ہیں، جو انہوں نے اپنے کسی قریبی شاگرد کے لئے لکھے ، جب وہ کسی ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں دوردراز شہر مقیم ہوا۔ فطری طور پر ان خطوط کی زبان اور علمی مباحث اس شاگرد کی روحانی سطح اور ذہنی معیار کے مطابق تھیں۔آج کے کسی نئے طالب علم کے لئے اس گہرائی کو سمجھنا آسان نہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ تصوف اور روحانیت میں آج دلچسپی لینے والے صرف سالک یا کسی روحانی سلسلہ میں وابستہ ہونے والے افراد ہی نہیں بلکہ روحانیت کو مائنڈ سائنسز کے حصہ کے طور پربھی لیا جاتا ہے۔ بے شمار نوجوان اسے خالص علمی موضوع کے طور پر بھی دلچسپی سے پڑھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ سائنسی پس منظر اور جدید عقلیات کے پس منظر میںماڈرن ڈکشن کے ساتھ ان کلاسیکل علوم اور ان پرکئے جانے والے نئے سوالات کے جواب سامنے آئیں۔ اس پس منظر میں شدید ضرورت تھی کہ تصوف کی داخلی دنیا سے کوئی صاحب معرفت صوفی اٹھے اور اس عظیم علمی میراث کو عام فہم انداز سے نئی نسل تک منتقل کرے۔ اس طرح تصوف کے روایتی اسباق اور علمی لدّنی کی اصطلاحات کی رسائی اردو پڑھنے والی نئی نسل تک ممکن ہوسکتی تھی۔ ازحد مسرت سے یہ ماننا پڑے گا کہ قبلہ سرفراز اے شاہ صاحب نے یہ کام کمال درجہ عمدگی اور مہارت سے انجام دیا ہے۔سرفراز شاہ صاحب بلند پایہ صاحب کمال بزرگ ہیں ، انہیں اس عہد کا عارف کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ سرفراز اے شاہ صاحب کی بنیادی نسبت چشتیہ سلسلہ سے ہے، وہ وارثی صابری چشتی سلسلہ کے نامور بزرگ جناب یعقوب علی شاہ صاحب کے خلیفہ ہیں۔سرفراز شاہ صاحب کوحضرت سید علی ہجویریؒ داتا صاحب سے جنیدی سلسلہ اور حضرت میاں میرؒسے قادری سلسلہ میں خلافت بھی حاصل ہے۔
شاہ صاحب کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ قدیم وجدید کا حسین امتزاج ہیں۔ اعلی مغربی تعلیم پائی، سول سروس میں رہے، فیڈرل ایڈیشنل سیکرٹری کے منصب پر ازخود استعفا دے دیا، یورپ میں کئی سال مقیم رہے، برمنگم یونیورسٹی ، برطانیہ میں مینجمنٹ سائنسز پر پڑھاتے رہے۔ علم لدّنی میں انہیں کمال حاصل ہے۔تصوف کی کلاسیکل روایت میں رچے بسے صوفی سکالر ہیں۔ پچھلے چھتیس برسوں سے ہر ہفتے دعا کی نشست کرتے ہیں، لاکھوں لوگ ان سے فیض پا چکے۔کورونا کے باعث یہ سلسلہ آج کل معطل ہے۔ چند سال پہلے قبلہ سرفراز شاہ صاحب نے اقبال ٹاون، لاہور میں اپنے دعا گھر پر روحانیت پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا۔ اللہ پاک نے اس میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی۔ ان لیکچرز پر مبنی شاہ صاحب کی اب تک آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ کہے فقیر اس سلسلہ کی پہلی کتاب تھی جس کے بلامبالغہ درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اردوزبان کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں یہ شامل ہے۔ کہے فقیر کے علاوہ شاہ صاحب کی سات مزید کتابیںفقیر رنگ، فقیر نگری، لوح فقیر، ارژنگ فقیر، نوائے فقیر،عرض فقیر، جہان فقیر شائع ہوئی ہیں، ان سب کے درجنوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
شاہ صاحب کی کتابوں کے علاوہ ان کے بے شمار ٹی وی پروگرام بھی نشر ہوئے، یوٹیوب پر بھی ان کے بہت سے لیکچرز کے کلپ موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے ساتھ معروف ٹرینر، موٹیویشنل سپیکر اور مصنف سید قاسم علی شاہ نے نشستوں کا سلسلہ شروع کیا۔ قاسم علی شاہ کی شاہ صاحب کے ساتھ روحانی، علمی نسبت ہے ۔ قاسم علی شاہ نے ان نشستوں میں سے انتخاب کر کے زیرنظر کتاب’’سرفراز اے شاہ صاحب کے ساتھ۔ چالیس علمی نشستیں ‘‘ترتیب دی ہے۔ خاکسار کو شاہ صاحب کے بعض لیکچرز میں شرکت کی سعادت ملی ہے۔ قبلہ شاہ صاحب کا انداز بیان بہت عام فہم، سلیس اور رواں ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی سکالر یا مصنف کو اتنی عمدگی اور نفاست کے ساتھ باریک علمی نکات کھولنے اور ان کی شرح بیان کرتے نہیں دیکھا۔ شاہ صاحب کی گفتگو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ علمی لدّنی کیا ہوسکتا ہے۔مشاہدہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر شاہ صاحب سے سوال کیا جائے،لمحاتی توقف کے بعد گویا علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بہنا شروع کر دیتا ہے۔ گفتگو میں اتنی بے ساختگی اور روانی کہ سننے والے محو حیرت رہ جاتے ہیں۔
سید قاسم علی شاہ خود بڑے اچھے سپیکر اور انٹرویور ہیں، انہوں نے ان نشستوں میں اس مہارت اور تجربے کا بہت اچھا استعمال کیا اور شاہ صاحب سے برمحل ، ٹودی پوائنٹ سوال پوچھے۔ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کا معمول ہے کہ تفصیل سے کھول کر موضوع کو بیان کرتے ہیں۔ ان نشستوں میں مگر مجھے ایک نئی بات یہ لگی کہ شاہ صاحب نے ہر سوال کے جواب میں تمام اہم نکات بیان کئے مگر دانستہ گفتگو مختصر رکھی، شائد اس لئے کہ ان کے ویڈیو کلپ بھی یوٹیوب پر ڈالے جانے تھے۔قبلہ شاہ صاحب ویسے کوزے میں سمندر بند کرنے کا ہنر کمال انداز سے جانتے ہیں۔یوں جامع اور بھرپور علمی جوابات پر مشتمل یہ نہایت اعلیٰ کتاب تیار ہوگئی۔ شاہ صاحب کی پچھلی آٹھوں کتابیں پڑھنے کا اعزاز ملا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ چالیس علمی نشستیں ‘‘ایک منفرد کتاب ہے، اس میں شاہ صاحب کی فکر اور روحانیت کی معروف اصطلاحات ،تصوف کے تربیتی نصاب کے اہم ابواب کا خلاصہ آ گیا ہے۔ چالیس نشستوں میں سے صرف پانچ سات کی تفصیل پیش کر رہا ہوں۔ پہلی نشست (موت کا خوف، اللہ کی محبت، ہماری حقیقت محدود ویڑن اور علم )، نشست دو(خانقاہی نظام میں جدت کیوں نہیں؟،ولی اللہ کی پہچان کیا؟تصوف میں اجازت کی اہمیت،علم کو آگے کیسے بڑھایا جائے؟)، نشست تین (اسم اعظم، دنیاوی نظام میں فقیری، اللہ کے صفاتی نام اور ان کے معنی، علم نافع)، نشست پانچ(اللہ سے محبت اور عشق، وہ عمل جو اللہ کے قریب رکھے)،نشست چھ (معاشرتی اقدار اور بہو، ازدواجی رشتہ اور خونی رشتے دار، والدین کا بچوں سے تعلق،عورت کی ذمہ داری اور قربانی)، نشست گیارہ (ولی کی بیعت، کشف رحمانی اور کشف شیطانی میں فرق)،نشست بارہ (سوشل میڈیا اور حسدوبدگمانی،مرشد پیر اور قلندر میں فرق،خوابوں کی حقیقت )،نشست تیرہ (سرفراز شاہ صاحب کا انداز مطالعہ، مائنڈ سائنسز اور روحانیت ،مختلف مزاج کے افراد کو سمجھنا)۔ نشست اٹھارہ (روحانی لطائف، مراقبہ، اللہ کن کی دعائیں سنتا ہے؟،تصوف میں گدی نشیں کی حیثیت)،نشست اکیس(مڈل ایج کرائسس، وظیفہ اور عمل، استخارہ)، نشست بائیس(ذکر جہری اور خفی، سلسلہ ملامتیہ،دعا اور قبولیت، خدمت کی صورت میںڈیوٹی)، نشست چوبیس(لادین افراد اور روحانیت، روحانیت اور ہندو کلچر، انسانی ہالہ،پیدائشی ولی، روحانیت کا راستہ)،نشست ستائیس(روح لطیف اور کثیف،دعا کی قبولیت کا احساس، ثابت قدمی، کتابوں اور جنتریوں میں وظائف، چوری کے بارے میں انگوٹھے کے ناخن میں دیکھنا،سورہ واقعہ اور سورہ رحمان سے استفادہ )۔
یہ صرف چند نشستوں کا احوال ہے، ورنہ فہرست پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ تمام چالیس نشستیں غیر معمولی علم اور تربیت کے پہلو سموئے ہوئے ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں کسی ایک کتاب میں اتنے متنوع موضوعات اور سوالات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ سید قاسم علی شاہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی محبت اور کوشش سے قبلہ شاہ صاحب کو ان نشستوں کے لئے آمادہ کیا اور یوں اردو کے قارئین تصوف پر ایک عظیم الشان کتاب سے مستفید ہوپائے۔ قبلہ شاہ صاحب کا سایہ ہمارے اوپر قائم رہے اور آپ کا علمی، روحانی فیض جاری رہے۔ ایسی کئی کتب مزید لکھی جائیں اور روحانیت کے متلاشی طالب علموں کی پیاس بجھنے کا سبب بنے، آمین۔ نوٹ: یہ کتاب قاسم علی شاہ فائونڈیشن /نئی سوچ پبلشرز لاہورنے دیدہ زیب ٹائٹل اور دلکش پرنٹنگ کے ساتھ شائع کی ہے۔